صدرٹرمپ کا دورہ جاپان

صدرڈونلڈ ٹرمپ کے چارروزہ دورے کے دوران بنیادی طورپرتین موضوعات زیادہ زیربحث رہے۔دفاعی اورتجارتی امورکے علاوہ شمالی کوریا گفتگوکابنیادی نقطہ رہا

Amir Bin Ali مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی پیر 10 جون 2019

Sadar Trump Ka Dora Japan
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ چارروزہ دورہ جاپان کئی اعتبارسے تاریخی اہمیت کا حامل رہا۔یادرہے کہ جاپان میں نئے شہنشاہ کا عہد اسی ماہ مئی میں آغاز پذیر ہوا ہے۔بتیس سال تک حکمرانی کرنے کے بعد اکی ہیتونے رضاکارانہ طور پراپنا عہدہ چھوڑدیا ہے،نئے شہنشاہ ناروہیتوسے ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی بیرونی ملک سے آکر ملنے والے پہلے سربراہ مملکت تھے۔

شاہی استقبالیہ تقریب اور عشائیہ غیر معمولی نوعیت کا تھا۔گرچہ جاپان میں بادشاہ کا عہدہ بھی برطانیہ کی ملکہ کی طرح تکریمی نوعیت کا ہے اورروزمرہ کے حکومتی معاملات میں شہنشاہ کاکوئی عمل دخل نہیں ہوتا،مگریہ عہدہ نمائشی ہرگزنہیں ہے۔یہاں کوئی بھی شخص بادشاہ سے نظرملا کر بات کرنے کی جسارت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

(جاری ہے)

برطانیہ میں تو پریس ملکہ برطانیہ پرتنقید بھی کرتا رہتا ہے مگریہاں توتاریخی طور پربادشاہ کو خدا کااوتار اور نائب تصورکیا جاتاتھا۔


صدرڈونلڈ ٹرمپ کے چارروزہ دورے کے دوران بنیادی طورپرتین موضوعات زیادہ زیربحث رہے۔دفاعی اورتجارتی امورکے علاوہ شمالی کوریا گفتگوکابنیادی نقطہ رہا۔حیرت انگیز طورپرایران بھی دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات میں گفتگوکاموضوع بنارہا۔جاپانی وزیراعظم شنزوآبے کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ کاکہناتھاکہ چونکہ ایران اور جاپان کے باہمی تعلقات بہت اچھے ہیں اوراگرجاپان ایران کے ساتھ امن کے لئے بات چیت کرے تو میں بھی بات کرنے کے لئے تیارہوں۔

جنگ کے امکانات کے تناظر میں صدرٹرمپ کا کہنا تھاکہ کوئی بھی ہولناک چیزیں نہیں دیکھنا چاہتاہے،خاص طورپر بذات خود میں۔خیر یہ سن کر میرے لئے اپنی ہنسی کوکاقابورکھناکافی مشکل تھا۔قارئین کے لئے یہ خبر دلچسپ ہوگی کہ جاپانی وزیراعظم شائد وہ سربراہ مملکت ہیں جن کے ساتھ ٹرمپ کا سب سے زیادہ رابطہ رہتا ہے۔امریکی صدر اورجاپانی وزیراعظم ا ب تک چالیس مرتبہ ٹیلی فون پریابا لمشافہ ملاقات کرچکے ہیں۔

اس حیرت انگیز قربت کاانکشاف وائیٹ ہاؤس کے ترجمان نے خود ایک سوال کے جواب میں کیاہے۔
وزیراعظم شنزوآبے کے تقریرنویس پروفیسر توموہیکوکا یہ انکشاف دلچسپ ہے کہ جاپانی وزیراعظم وہ واحد غیرملکی سربراہ ہیں جن سے صدر ٹرمپ گھنٹوں بے تکان گفتگوکرسکتے ہیں۔امریکی صدربغیرکسی تحریری موضوعات کی فہرست کے طویل گپ شپ کرتے ہیں،جس کی جاپان کے لئے بحرحال ایک تنرویراتی اہمیت ہے۔

دونوں ممالک کے سرکاری ترجمانوں کے بیانات اور تاثرات اپنی جگہ مقدم ہیں،مگرریاستوں کے آپس میں تعلقات ویسے قطعاً نہیں ہوتے جیسے افراد کے باہمی تعلقات ہوتے ہیں۔کسی ملک کی دوسرے ملک کے ساتھ دوستی اور دشمنی بے سبب اور مستقل نوعیت کی نہیں ہوتی۔خارجہ تعلقات میں آج کی دنیا جس چیز کو سب سے زیادہ مقدم رکھتی ہے وہ ہر ملک کا اپنا قومی مفاد ہے۔

کبھی کوئی دیس اپنا نقصان کرکے کسی دوسرے دیس کافائدہ نہیں کرتاہے۔باہمی مفادات ملکوں کوجوڑنے کا سبب بنتے ہیں۔جہاں تجارتی مفادات کا ٹکراؤ آجائے ،سب کواپنی اپنی پڑجاتی ہے۔اس کی ایک مثال موجودہ دورے کے دوران دونوں ممالک کا کسی حتمی تجارتی معاہدے پرنہ پہنچنا ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ اس کی زرعی اجناس پرعائد ڈیوٹی کم یا ختم کی جائے جبکہ گاڑیوں پر ڈیوٹی کم کرانے سمیت جاپان کاکہنا ہے کہ صرف زرعی اجناس کی بجائے نوہزاراشیاء تجارت،جوکہ امریکہ اورجاپان کے درمیان باہمی بیوپارکی اشیاء ہیں،ان سب پر ایک جامع تجارتی معاہدہ کیاجائے۔

چارروزہ دورے کے دوران ایسامعاہدہ طے نہیں پاسکا،اب اگست میں شائد یہ معاہدہ طے پاجائے۔
صدر ٹرمپ کی جاپان میں مصروفیات کافی رنگارنگ قسم کی رہیں۔جاپان کے روایتی کھیل سوموکے چیمپئن شپ فائنل کے فاتح پہلوان کو صدر ٹرمپ کے ہاتھوں سے انعام دلوایاگیا۔اتوار کے دن کشتی کے اکھاڑے کے اردگردامریکی صدر اپنی اہلیہ سمیت براجمان تھے اور جاپانی وزیراعظم بھی اپنی زوجہ محترمہ ساتھ ان کے پہلومیں بیٹھے تھے ۔

اس سے گزشتہ روز امریکی صدر اور شنزوآبے نے دن کا زیادہ تر حصہ ٹوکیومیں اکٹھے گالف کھیلتے ہوئے گزارا۔مبصرین کے نزدیک اس غیرروایتی ملاقات کا مقصد اگلے ماہ اوساکا میں ہونے والے G20(جی ٹونٹی)اجلاس میں امریکی صدرکی شمولیت کو یقینی بنانابھی تھا۔علاوہ ازیں فرانس میں ہونے والے گروپ سیون کے اجلاس میں شرکت پر ٹرمپ کوآمادہ کرنا بھی شامل تھا۔


دفاعی امور ہمیشہ جاپان اور امریکہ تعلقات کا اہم ترین موضوع ہوتا ہے ۔امریکی صدر اور جاپانی وزیراعظم نے بحری اڈے پرفوجیوں سے خطاب کیا اور اس دورے کی مذکورہ جہت کی اہمیت کوبھی نمایاں کیا۔یاد رہے کہ جاپان میں پچاس ہزارامریکی فوجی مستقل طور پر تعینات رہے ہیں۔شمالی کوریا اور جاپان کے تعلقات تقریباًویسے ہیں جیسے ہمارے بھارت کے ساتھ ہیں۔

جب سے ٹرمپ صدر بنے ہیں وہ شمالی کوریا کے صدر سے دو مرتبہ مل چکے ہیں۔غالباًاسی تناظر میں وہ اپنی پریس کانفرنس کے دوران یہ دعویٰ کررہے تھے کہ مجھ سے پہلے آئے دن شمالی کوریا نئے میزائل اور نیوکلیئرٹیسٹ کررہاتھامگر میرے آنے کے بعد یہ سلسلہ تھم گیا ہے۔حالانکہ گزشتہ ماہ ہی شمالی کوریا نے نئے میزائل کا تجربہ کیا ہے جوکہ امریکی صدر کے دعوے کی نفی کرتا ہے مگراس موضوع پرپھرکبھی بات کریں گے۔

میرے لئے سب سے حیرت انگیز منظروہ تھاجب صدرٹرمپ کا قافلہ ٹوکیوکی سڑکوں سے گزررہاتھااور سکول کے بچے گرم جوشی سے امریکی اور جاپانی پرچم لہراکر اس کااستقبال کررہے تھے،جنگ عظیم دوم کے دوران جتنا جانی اور مالی نقصان امریکہ کے ہاتھوں جاپان نے اٹھایا شائد انسانی تاریخ میں اس کی مثال مشکل سے ہی ملے،مگردورحاضرکے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی مفاد میں یہ فیصلہ کیا گیاکہ اب امریکہ سے دوستی کر لی جائے۔

مقامی لوگوں سے ملاقات اور گفتگو کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ دلی طور پر امریکہ کو پسندکرتے ہیں۔کبھی ہیروشیمااورناگاساکی کی بات کریں توعموماًلوگوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ یہ تباہی جنگ کے نتیجے میں آئی تھی ،اس لئے جنگ سے نفرت کرنی چاہیئے،امن کے لئے جدوجہدکرنی چاہئیے۔امریکہ نے بلا شبہ زیادتی کی تھی مگرقصورجاپان کا بھی تھا۔محسوس ہوتا ہے جنگ کی یاداشتیں پس پشت ڈال کر امریکہ اورجاپان ایک طویل خوشگوار تجارتی اور سفارتی تعلق چاہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sadar Trump Ka Dora Japan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 June 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.