
سعودی عرب کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال اور پاکستان
سعودی فرماں رو اسلمان شاہ کی طرف سے ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں راتوں رات قائم کی گئی ۔انسدادبد عنوان کمیٹی کے احکامات پر چند ہی گھنٹوں میں منی لانڈرنگ ،کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی پاداش میں اب تک سعودی عرب میں درجنوں شہزادے اور چالیس کے قریب اہم ترین سعودی شہری گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
پیر 13 نومبر 2017

(جاری ہے)
سابق شاہ عبداللہ مرحوم کی زندگی میں سعودی عرب کے آج کے ولی عہد اور ریاست کے سبھی فیصلوں کی کلید اپنی دسترس میں رکھنے والے شہزادے محمد بن سلمان ناصرف پوری دنیا کے لیے ایک اجنبی چہرہ تھے بلکہ خود سعودی عرب کے انتظامی ڈھانچے میں بھی انہیں کوئی خاص مقام حاصل نہیں تھا۔
تا ہم سلمان شاہ کے اقتدارمیں آنے کے بعد اس نوجوان شہزادے نے چند ہی ہفتوں میں سعودی عرب کی انتظامیہ پر اپنی گرفت اتنی مضبوط کر لی ہے کہ آج وہ ملک کے داخلی ،خارجہ اور معاشی محاذوں پر فیصلہ کن حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ 2030کے اپنے ویڑن کے مطابق محمد بن سلمان سعودی عرب کو ایک ایسی اعتدال پسند اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں جس میں لوگوں کو آزادانہ طور پر تجارت اور صنعت کاری کا حق حاصل ہو ماضی میں ریاست پر حاصل مذہب کے کنٹرول کو کم سے کم سطح تک لایا جائے سرمائے کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہو جو منڈی کی معیشت کا ناگزیر جزو سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح عورتوں کو کھیل کے میدانوں ،ڈرائیونگ اور زندگی کے دیگر شعبوں میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ آزادی عمل حاصل ہو اس سلسلے میں انہیں اپنے والد سلمان شاہ کے علاوہ امریکہ کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے۔یمن کی جنگ کے علاوہ سعودی عرب کے قطر کے ساتھ تعلقات بھی ان دنوں خاصے کشیدہ ہیں اس کے علاوہ داخلی محاذ پر بھی انتشار اور کشیدگی کی کیفیت بڑھ رہی ہے اسی طرح کئی عشروں سے ملک کے فیصلوں کے لیے کلیدی اہمیت رکھنے والے مذہبی طبقات کو بھی محمد بن سلمان نے پیچھے دھکیل دیا ہے۔ جس کے باعث آج سعودی عرب شدید کشمکش کا میدان نظر آرہا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ محمد بن سلمان سبھی محاذ کھولنے کی بجائے ایک ایک کر کے معاملات کو من پسند رخ دیتے تا کہ اپنے تخیل میں آسانی سے رنگ بھر سکتے ۔تا ہم انہوں نے اپنی دانش کے مطابق تمام جگہوں پر بیک وقت لڑ نے کا جو فیصلہ کیا ہے اس کے نتائج کے بارے میں پیشن گوئی کر نا کوئی آسان کام نہیں ہے۔سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی تاریخ کا حصہ ہے جس میں کمی بیشی تو ہوتی رہی ہے۔ تا ہم صدیوں سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات معمول کی حیثیت کبھی بھی اختیار نہیں کر سکے اور یہ صورتحال آج بھی پوری دنیا کے سامنے ہے سعودی عرب کے خیال میں ایران، متعدد عرب ممالک بشمول عراق ،شام،لبنان ،لیبیا اور یمن میں حالات خراب کر رہا ہے اور حزب اللہ اور اسی طرح کی اپنی دیگر تنظیموں کے ذریعے عرب ممالک کے علاوہ خود سعودی عرب میں بھی مداخلت کر رہا ہے۔ جہاں کی شیعہ آبادی کو سعودی حکومت کے خلاف اکسایا جارہا ہے جبکہ ایران ان الزامات کی تردید کرتا ہے لبنان کے وزیر اعظم کی طرف سے گزشتہ روز سعودی عرب میں بیٹھ کر ایران کے خلاف لبنان میں مداخلت کے الزامات کے ساتھ ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے اعلان کو بھی سعودی ایران مخاصمت کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایک عرصے کے بعد عراق کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرتے ہوئے سعودی عرب نے ایران پر چوٹ لگائی ہے جو شا م میں اسد حکومت کو بچا نے کے بعد اب دیگر ممالک میں بھی اپنے اتحادیوں کے تحفظ کی راہ پر گامزن نظر آرہا ہے۔ سعودی عرب کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لیے پریشانی اور تشویش کے بے شمار گوشے موجود ہیں سعودی عرب میں مقیم لاکھوں پاکستانی ہمارے غیر ملکی زر مبادلہ کا اہم ترین ذریعہ ہیں اس کے علاوہ پاک سعودی تعلقات معیشت کے علاوہ دفاع کے میدانوں پر بھی محیط رہے ہیں۔ اس لیے اگر خدا نخواستہ سعودی عرب میں داخلی کشمکش کے نتیجے میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے تو اس سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر ہوگا اس کے علاوہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح پاکستانیوں کے دلوں میں بھی بستے ہیں۔ جو سعودی عرب میں واقع ہیں اور جن کے تحفظ کے حوالے سے ماضی کے بر صغیر اور آج کے جنوبی ایشیاءکے مسلمان ہمیشہ ہی حساس اور جذباتی رہے ہیں تیزی سے بدلتی ہوئی سعودی عرب کی صورتحال پر اثر انداز ہونے کی پاکستان صلاحیت تو نہیں رکھتا۔ کیونکہ اس کے پیچھے امریکہ اور مغرب کا ہاتھ ہے جو حرمین شریفین کی اس ملک میں موجودگی کے باعث سعودی عرب پر کنٹرول قائم رکھنے کے ہمیشہ ہی خواہشمند اور اس میں کسی حدتک کامیاب بھی رہے ہیں اور اب بھی ایران اور امریکہ سمیت مغرب کے مابین ایٹمی معاہدے کو ختم کر نے کی سعودی عرب کی خواہش کی تکمیل کے عوض ناصرف سعودی عرب کو اربوں ڈالرز کے ہتھیار فروخت کر نے کے معاہدے کر چکے ہیں۔ بلکہ اسے اسلامی رنگ سے ہٹا کر سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بنانا چاہتے ہیںاتفاق سے انہیں دنوں پاکستان کے آرمی چیف ایران کے سرکاری دورے پر ہیں جہاں ان کی ملاقاتیں سیاسی اور عسکری قیادت سے بھی ہوئی ہیں یقینا ان ملاقاتوں میں سعودی عرب کی صورتحال بھی زیر بحث آئی ہوگی۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی کے باعث پاکستان ہمیشہ ہی ایک امتحان سے دوچار رہا ہے کیونکہ جہاں ایران ہمارا ایک ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ہے وہیں پر سعودی عرب کے ساتھ بھی پاکستان کے دیرینہ اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے پاکستانی قوم دونوں ممالک کے مابین معمول کے تعلقات کے قیام کے لیے کوشاں رہی ہے تا ہم سعودی عرب کی موجودہ صورتحال نے پاکستان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے جن سے نبرد آزما ہونا آ ج ہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
مزید عنوان
Saudi Arab Ki Tezi Se Badalti Howi Sorat-e-Hal Or Pakistan is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 November 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.