سعودی عرب میں امریکی افواج کا اضافہ

امریکی تاریخ سے بخوبی سمجھاجاسکتاہے کہ امریکہ کو سعودی عرب سے کوئی محبت نہیں جس کے دفاع کے لیے وہ اپنی فوجوں کے ساتھ وہاں امڈتاچلاآتاہے اور نہ ہی امریکہ کو ایران سے کوئی دشمنی ہے جس سے بدلہ لینے کے لیے اس نے اپنی سپاہ کو لااتاراہے۔دراصل یہ امریکہ کی اسلام دشمنی ہے

ڈاکٹر ساجد خاکوانی ہفتہ 12 اکتوبر 2019

Saudi arab mein Amriki afwaj ka izafa
 جمعة المبارک 11اکتوبر2019ء کو امریکی وزیردفاع نے کہاہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمدسلمان کی درخواست پر امریکہ نے سعودی عرب میں مزید افواج کی تعیناتی کافیصلہ کیاہے۔امریکی وزیردفاع نے اپنی وزارت میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں مزیدبتایا کہ امریکی حکومت نے سعودی عرب میں لڑاکاطیاروں کی تعدادمیں اضافہ اورجدیدترین دفاعی نظام سمیت ہزاروں فوجیوں کو سعودی عرب بھیجنے کی منظوری دے دی ہے۔

انہوں نے اس اقدام کے حق میں سعودی تیل کی تنصیبات پر ایرانی حملوں کو بطورجواز پیش کیااور کہا امریکہ نے مملکت سعودی عرب کے تحفظ کے لیے یہ اقدام اٹھایاہے۔
گزشتہ ماہ سعودی عرب کے دوشہروں ”بقیق“اور”خریص“میں تیل کی بڑی بڑی تنصیبات پر میزائل حملے ہوئے تھے اور بہت زیادہ نقصان بھی ہواجس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں اور درآمدوبرآمدبھی متاثر ہوئی۔

(جاری ہے)

ان حملوں کے بارے میں خدشہ ظاہر کیاجاتاہے کہ ایران نے کیے تھے۔لیکن ایرانی حکومت متعدد بار ان حملوں سے لاتعلقی کا برملا اظہار کرچکی ہے اور ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید بھی کرچکی ہے۔ان حملوں کی ذمہ داری یمنی حوثی قبائل نے قبول کر لی لیکن پھربھی اس کے بعد سعودی ولی عہد شہزادے نے اپنے متعدد بیانات میں ایرانی حکومت پر ان حملوں کاالزام لگایا اور اس جیسے مزید حملوں کااندیشہ بھی ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ دنیاکو مل کرایرانی دہشت گردی کامقابلہ کرنا چاہیے۔

امریکی محکمہ دفاع پنٹاگان کا مزید کہناہے کہ سعودی عرب میں امریکی عساکرکا حالیہ اضافہ سمندری راستوں کی محافظت کے لیے ہے۔دریں اثنا سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلیمان نے بھی امریکی افواج کی تعیناتی کی اجازت دے دی ہے۔پنٹاگون کے مطابق امریکی افواج سعودی فوجی اڈوں پرمیزائل شکن پٹریاٹ نظام نصب کریں گی، اورایف ۲۲(F-22)جنگی طیاروں کی کھیپ ،جب کہ یہ طیارے ریڈار کی دسترس میں نہیں آسکتے،ٹی ایچ اے اے ڈی بیلسٹک میزائل انٹرسپیشن سسٹم،دو فلائٹ اسکوارڈن اور ایک ائر ایکسپنڈیشنری ونگ سعودی عرب بھیجے جائیں گے۔

اس بار کم و بیش تین ہزار مزید افواج بھیجی جارہی ہیں جن کے ساتھ امریکی افواج کی تعداد چودہ ہزارسے متجاوز ہو جائے گی۔یہ تمام تنصیبات اور ماہرترین افراد کار جس علاقہ میں ہوں گے امریکہ نے کمال دیدہ دلیری سے اس علاقے کانام”سنٹرل کمانڈ ایریا“رکھ دیاہے۔
بادی النظر میں صاف دیکھاجاسکتاہے کہ امریکہ اس سال کے آغازسے مذکورہ عسکری ناجائزتجاوز ات کے لیے میدان صاف کررہاتھا۔

2015ء کے ایران امریکہ جوہری معاہدے سے واشنگٹن نے بلاوجہ وبلااطلاع یکطرفہ طورپراس سال کے شروع میں ہی علیحدگی کااعلان کرکے ایران پر معاشی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ایران کو برانگیختہ کرنے کے لیے امریکہ نے اپنے ڈرون بھیجنے کی بھی نازیباکوشش کی لیکن ایران نے اپنی ریاستی حدودمیں داخل ہونے والے اس ڈرون کومارگرایااور امریکہ کھنبے نوچتارہ گیا۔

پانامہ کاتیل بردارجہازجب سمگلنگ کرتے ہوئے پکڑاگیاتو ایران نے اس کے عملے کے بارہ ارکان کو گرفتارکرلیا۔امریکہ خوامخواہ اس معاملے کود پڑاور ایران سے ان افراد کی رہائی کامطالبہ کرکے اپنے معاملات مزید خراب کر لیے۔اپنی خفگی مٹانے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے ایک فاتحانہ اعلان کیا کہ امریکی تیل بردارجہاز کے قریب آنے والے ایک ایرانی ڈرون کو مارگرایا گیاہے۔

اس بڑک کا راز تب فاش ہوگیاجب ایران نے کہاکہ وہ ڈرون ایران کاتھا ہی نہیں۔ان سب پر مستزاد یہ کہ ضابطے کی خلاف کرنے والے ایک برطانوی بحری جہاز کو بھی ایران نے پکڑ لیاجس سے امریکہ اور برطانیہ دونوں سیخ پا ہوئے اور ایران کو سخت نتائج کی دھمکیاں دیں۔
امریکہ نے اپنے دوبحری جہازوں پر بھی ایرانی حملے کاالزام لگایا لیکن ایران نے اسے کذب بیانی قراردے دیا۔

اگریہ تمام واقعات اتفاقاََہوئے تو بھی امریکہ کو براہ راست ایران سے اس کا بدلہ لینا چاہیے اور سعودی عرب کو درمیان میں لانے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔اوریہ تمام پس منظراگر ایران کے گرد گھیراتنگ کرنے کا ارادتاََ انتظام تھا تو بھی سعودی عرب کو ناجائز اس میں جھونکاجارہاہے۔
اپنے وطن سے ہزاروں میل دور کی مسافتوں پر جنگ لڑنا کوئی خالہ جی گھرکاکھیل نہیں۔

کثیرافرادی قوت کی فراہمی،بھاری جنگی مشینری کی منتقلی، وافرایندھن کاانتظام اورسیاسی محاذپر اپنے ناجائزاقدامات کے دفاع کے لیے ذرائع ابلاغ کا بے پناہ استعمال،ان سب امور کے لیے سونے کی بہت وزنی اینٹیں بھی شاید کم پڑ جائیں۔ایسے میں وسائل کا تمام تر بوجھ سعودی عرب پر ڈال دینا کوئی نئی مثال نہیں ہے۔
ماضی قریب میں ایک سے زائدمرتبہ امت کو آپس میں لڑانے کے لیے اس طرح کے حربے بہت دفعہ آزمائے گئے۔

اس آسمان نے متعدد بار دیکھا کہ مسلمانوں کے جانی و مالی وسائل دشمنوں کے ہاتھوں میں پہنچا کر خود مسلمانوں کے خلاف استعمال کیے گئے۔امت میں عبداللہ بن ابی کاکردار پہلے دن سے موجود ہے اور تاریخ اس کردارکو نام بدل بدل کر دہراتی رہتی ہے۔دکھ سے کہناپڑتاہے کہ امت مسلمہ غداروں کے معاملے میں شایدہمیشہ خود کفیل رہی ہے۔پوری اسلامی تاریخ میں باہر کادشمن اتنا نقصان مسلمانوں کو کبھی نہیں پہنچاسکا جتنا آستین کے سانپوں نے پہنچایاہے۔

سعودی عرب میں تیل کے کووٴں سے بھڑکتی ہوئی آگ نے ہمیشہ امت مسلمہ کو ہی جھلسانے کاکام کیاہے۔ایک مرد مجاہد شاہ فیصل بن عبدالعزیزشہیدنے اگر دشمنان اسلام کو آنکھیں دکھائیں تھیں تو ان کا قاتل بھی گھرکاہی بندہ تھا۔امریکہ ایران سے جنگ لڑے گالیکن سرمایا سعودی عرب کا استعمال ہوگا،امریکہ ایران سے جنگ لڑے گا لیکن زمین سعودی عرب کی استعمال کرے گا،امریکہ ایران سے جنگ لڑے گا لیکن بدنامی سعودی عرب کے حصے میں آئے گی اور بڑی سادہ اور سہل الفہم بات ہے کہ اگر امریکہ جنگ جیت گیا تو امریکہ فاتح ہو گا اورنقصان ایران کا ہوگااور اگرامریکہ جنگ ہار گیاتو امریکہ مفتوح ہوگا اور نقصان سعودی عرب کا ہوگا۔

کیااتنی سادہ سی بات بھی ایران اور سعودی عرب کی قیادت کو سمجھ نہیں آتی؟؟؟
1990ء کی خلیجی جنگی کشمکش کے بعد سعودی عرب میں امریکی افواج داخل ہوئیں۔محسن انسانیت ﷺنے مدینہ منورہ سے یہودیوں کااخراج کردیاتھا،اور وصیت فرماگئے تھے کہ ان کو جزیرة العرب سے نکال باہر کیاجائے۔حضرت عمر نے اپنی دورخلافت میں یہودکو عربستان سے بھی باہر نکال دیاتھا۔

اس کے بعد سے یہود نے بے پناہ کوششیں،سازشیں اور خفیہ کارروائیاں کیں تاکہ کسی طرح جزیرہ نمائے عرب میں قدم جماسکیں لیکن ناکام ہی رہے۔امت پر تین سوسالہ دور غلامی گزرا،اس گئے گزرے دورمیں بھی خلافت عثمانیہ کا ڈھیلا ڈھالا بھرم قائم رہا اور یہودی ناکام و نامراد ہوتے رہے۔سینکڑوں سالوں کے بعد1990ء میں پہلی بار یہ طبقہ سعودی عرب کی حدود میں پوری بدمعاشی سے داخل ہو اورپوری امت میں بے چینی پھیل گئی۔

اس وقت امریکہ کا اپنے وطن سے باہر یہ سب سے بڑا فوجی مشن تھا۔
29اپریل2003ء میں امریکہ نے اپنے فوجی واپس بلانے کااعلان کیا۔لیکن یہ اعلان اسی طرح تھاجیسے ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور چبانے کے اور۔امریکہ نے اپنے اڈوں کی حفاظت اور سعودی افواج کی تربیت کے بہانے اپنی افواج بہانے بہانے سے سعودی عرب میں موجود رکھیں۔تب سے اب تک کم یازیادہ سعودی عرب میں امریکی افواج کبھی کم اور کبھی زائد کی تعداد میں آتی جاتی رہیں۔

لیکن اب کی بار اتنی بڑی تعدادمیں افواج کی آمداور ان کے ساتھ بھاری عسکری مشینری کی آمد کوئی اچھی اطلاع نہیں ہے۔افغانستان میں امریکہ بدترین شکست کھاکرواپسی کے راستے تلاش کرتاپھررہاہے۔افغانستان میں تعینات افواج کو سعودی عرب میں ٹھکانا فراہم کردیناامریکی قیادت کی شاطرانہ چال ہو سکتی ہے۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ اپنے وطن میں موجود اپنا اور اپنے اہل خانہ کا اور اپنی قوم اور اپنے ایمان کا دفاع کرنے والے ”دہشت گرد“بن گئے اور ہزارہامیلوں سے برآمد کیے گئے فوجی،اپنے اسلحے کے ساتھ آبادیوں،باراتوں،جنازوں اور تعلیمی اداروں پربمباری کرنے والے ہستی بستی آبادیوں کو خون میں نہلانے والے ”امن پسند“قراردے دیے گئے۔

امریکی تاریخ سے بخوبی سمجھاجاسکتاہے کہ امریکہ کو سعودی عرب سے کوئی محبت نہیں جس کے دفاع کے لیے وہ اپنی فوجوں کے ساتھ وہاں امڈتاچلاآتاہے اور نہ ہی امریکہ کو ایران سے کوئی دشمنی ہے جس سے بدلہ لینے کے لیے اس نے اپنی سپاہ کو لااتاراہے۔دراصل یہ امریکہ کی اسلام دشمنی ہے۔افغانستان،گروزنی،برما،بوسنیا،اریٹیریا،عراق اور شام کو تباہ کرنے اور اجاڑ دینے کے بعد اورہنودو یہودونصاری نے اب تاک کر مسلمانوں کے قلب کو نشانہ بنانے کا سوچاہے۔

امت مسلمہ کا وجود ان سیکولر قوتوں کے سینے پر دال دلتا ہے اور صحیح العقیدہ مسلمانوں کی قوت ایمانی ان کی راتوں کی نیندیں اڑائی دیے جا رہی ہے۔
اسلامی نشاة ثانیہ شایدمسلمانوں کو بہت دور نظر آرہاہو لیکن دشمنان اسلام اسے پس دیوارطلوع ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔اٹھارویں صدی میں کل امت غلامی کے اندھیرے غار میں تھی،انیسویں صدی میں کل امت کے اندر بیداری کی تحریکوں کاآغاز ہوا،بیسویں صدی میں امت نے غلامی کی زنجیریں توڑیں اور جزوی آزادیاں حاصل کرلیں۔

اکیسویں صدی میں اب سرمایادارانہ نظام نے سیکولرازم کے روپ میں اپنی وجود کی آخری جنگ کاآغاز کردیاہے۔بہت مدت ہوئی کیمونزم اپنی قبر کھود کر اس میں دفن ہو چکااور بہت جلد اسلامی نظام حیات سے برسرپیکار سیکولرازم،لبرل ازم،ایتھیٹس،نام نہاد ہیومن ازم اورنیشنل ازم سمیت مغربی تہذیب کے تمام باقیات لغویات اپنے انجام کو پہنچنے والی ہیں اور عالم انسانیت رحمة اللعالمین کی تعلیمات کے سایہ عاطفت میں آنے والی ہے،ان شااللہ تعالی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Saudi arab mein Amriki afwaj ka izafa is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 October 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.