صرف اک ہْو کی محتاج ہے ، ہماری یک جائی

پیام حق کی دعوت میں جان دے تو سکتے ہیں لیکن انتقامی کارر وائی میں جان لے نہیں سکتے۔ جن کا ذائقہ اور ہاضمہ خراب ہے انہیں کیا معلوم کہ حق کیا ہے! اور انہیں یہ بتانا ضروری ہے

زبیر ایچ شیخ پیر 25 مارچ 2019

sirf ek ho ki mohtaj hai, hamari yak jayi
بقول بقراط لوگوں کا ہاضمہ خراب ہو گیا ہے اور بقول شیفتہ ذائقہ- برقی پیام میں موضوع بہت اہم تھا اور عالمی نوعیت کا بھی اس لئے ہم نے بالمشافہ گفتگو کی ٹھان لی- راستے بھر سوچتے رہے کہ کیا واقعی لوگوں کا ذائقہ اور ہاضمہ خراب ہو گیا ہے- عجلت زدہ کھانا اور پکانا، پھر عجلت میں چبانا اور اسی عجلت میں کھپانا، جسے اہل مغرب نے “فاسٹ فوڈ” کا نام دے دیا اور تیز رفتار طرز اکل و طعام بلکہ عجلت زدہ طرز زندگی کو ایک دنیا میں متعارف کرادیا، اور “انفیچو ایشن” اور “اوبسیشن” نامی دو ذہنی بیماریوں میں دنیا کو بذریعہ ٹی وی مبتلا کردیا- اور اس طرح پیٹ کے ہاضمہ کے ساتھ دماغ کا ہاضمہ بھی بد ذائقہ تیز رفتار خبروں نے خراب کر دیا - پتا نہیں انہیں ہر بات کی اتنی جلدی کیوں ہے- وہ تو اسی تیز رفتاری سے تعلق خاص ہو یا عام، جوڑتے اور توڑتے بھی ہیں اور اس سے بھی تیز رفتاری سے شادی بیاہ اور طلاق کو انجام بھی دے دیتے ہیں- ایسے ہی جیسے دکان میں داخل ہوئے، انواع و اقسام برگر، کولا اور چپس کی تصویروں کو نظر بھر کر دیکھا اور فریفتہ ہوگئے۔

(جاری ہے)


 پھر فرط مسرت سے سکے گنے اور والہانہ ٹوٹ پڑے- اور اب ان حالات میں کیا ذائقہ اور کیا ہاضمہ- برگر کی نہ زبان سے کوئی وابستگی قائم ہوئی نہ دانتوں نے مشاعرہ کیا، اور نہ ہی دل و جگر نے واہ واہ ہی کی- کھانے والے کو زبان کی درازی کا علم ہی نہیں کہ سرکار کی طرح اسکی نوک اور دیگر حصوں کے کیا کام ہیں، اور اسکے کلبلانے کا دماغ سے وہی تعلق ہے جو سیاست کا سرمایہ داری سے- اس لئے دل و جگر کے ساتھ دماغ بھی غیر مطمئن رہا، بلکل ایسے ہی جیسے الیکشن کے نتائج کے بعد رائے دہندگان ہوتے ہیں- اور معدہ اور آنتوں کو تو ویسے بھی سرکاری عملہ کی طرح آنکھ بند کر کام کرتے رہنے کی عادت ہے - اب باقی بچے اعضائے رئیسہ تو وہ بہ مانند متوسط طبقہ اندر ہی اندر کب غربت و افلاس میں مبتلا ہوئے کوئی اسپتالوں کی تجوریوں سے پوچھے- اب رہا ہماری قوم و ملت کا ذائقہ اور ہاضمہ تو اہل اقتدار و سیاست کی نا اہلی، مغرب نوازی اور دنیا پرستی نے خراب کر رکھا ہے، خاص کر عربی اقتدار و سیاست نے کہ بقول علامہ:
کعبہ پہلو میں ہے، اور سودائی بتخانہ ہے
کس قدر شوریدہ سر ہے شوقِ بے پروا ترا
قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا، محمل ہے بے لیلا ترا
اور ہے ترا شعار، آئین ملت اور ہے
زشت روئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا
اور رہے عام مسلمان تو بقول علامہ: 
رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا
بحر تھا صحرا میں تو، گلشن میں مثل جو ہوا
فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں، اور بیرون دریا کچھ نہیں 
الغرض ہم شیفتہ اور بقراط کی خدمت میں بات کا تصفیہ کرنے جا پہنچے- اور جب اپنی بات رکھی تو بقراط ہتھے سے اکھڑ گئے اور ہمیں پریسیڈنٹ ٹرمپ اور مودی راجہ کی یاد دلا گئے- کہنے لگے لوگوں کا ہاضمہ خراب ہو گیا کہ انہیں سچائی ہضم نہیں ہورہی- شیفتہ نے کہا لوگوں کا ذائقہ خراب ہو گیا ہے اس لئے ہاضمہ بھی- سچائی کا اپنا ذائقہ ہوتا ہے۔

بقراط نے تعجب سے آنکھیں پھاڑی ایسے ہی جیسے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کی عظمت و شان اور حق شناسی دیکھ کر اسلام دشمن طبقے نے آنکھیں پھاڑی تھیں- اور پھر بقراط نے اپنی آنکھیں موند لی، ایسے ہی جیسے ہندوستان کی سرکار نے کرائس چرچ قتل عام میں ہندوستانی مسلمانوں کی شہادت کی خبر سن کر بلی کی طرح آنکھیں موند لی - اور اب مسلمانوں کے غیر ملکی زر مبادلہ کا دودھ پینے تیار بیٹھی ہے- ورنہ سچائی تو یہ تھی کہ عالمی اہل اقتدار اور انکے حاشیہ بردار ٹی وی چینلز کرائس چرچ قتل عام کو”کرسچن ٹیررازم“ سے منسوب کرتے- ہندوستانی میڈیا تو عموماً متعصب ٹہرا جو “ہندو ٹیرر ازم “ پر اندھا بہرا اور گونگا ہو بیٹھا ہے- ہم نے پوچھا سچائی کیا لوہے سے بنی ہے جو ہضم نہیں ہوتی؟ فرمایا، بلکل نہیں سچائی لوہے کے ٹی وی سے نکلی ہوئی کوئی بد بودار بد ذائقہ چیز نہیں ہوتی بلکہ میٹھی ہو یا کڑوی صرف ذائقہ شناس ہی ہضم کر پاتے ہیں۔

اور یہی قانون فطرت ہے-
 چاہے معاملہ پیٹ کی بھوک کا ہو یا سچائی کی بھوک کا- ورنہ سیاست غلیظہ کی بھوک کے ماروں کا ذائقہ اور ہاضمہ اتنا خراب ہو چکا ہے کہ یہ سچائی ان کے حلق سے اترتی کب ہے کہ ، اسلام اور مسلمان عالمی امن و آشتی کے علمبردار ہیں - اور منتشر ہونے کے باوجود اتنی تو عالمی طاقت و قوت بلکہ جرا ت رندانہ رکھتے ہیں کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے ہیں، لیکن پابند عہد و پیماں و ایقاں ہیں کہ رحمت للعالمین کے ماننے والے ہیں - پیام حق کی دعوت میں جان دے تو سکتے ہیں لیکن انتقامی کارر وائی میں جان لے نہیں سکتے۔

جن کا ذائقہ اور ہاضمہ خراب ہے انہیں کیا معلوم کہ حق کیا ہے! اور انہیں یہ بتانا ضروری ہے کہ: 
آج منتشر ہیں ہم، وقت آنے دے ناداں
صرف اک ہو کی محتاج ہے ہماری یک جائی

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

sirf ek ho ki mohtaj hai, hamari yak jayi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 March 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.