تبدیلی کے دعوے اور معاشی ماہرین کا معیشت کے ساتھ سلوک

ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 9.41فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اربوں ڈالرز لینے کے بعد ڈالر کی قیمت اوپر جا رہی ہے۔ ڈالر روز بروز بڑھ رہا ہے جو کہ

پیر 15 اپریل 2019

tabdeeli ke daaway aur muashi mahireen ka maeeshat ke sath salooq

رانا زاہد اقبال

ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 9.41فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اربوں ڈالرز لینے کے بعد ڈالر کی قیمت اوپر جا رہی ہے۔ ڈالر روز بروز بڑھ رہا ہے جو کہ اوپن مارکیٹ میں 145 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ خطے کے دوسرے ممالک میں ڈالر کے مقابلے میں کرنسی کی شرح تبادلہ کچھ یوں ہے، بھارتی روپیہ ایک ڈالر کے مقابلے میں 70روپے کا، افغان افغانی ایک ڈالر کے مقابلے میں 76افغانی کاجبکہ بنگلہ دیش میں ایک ڈالر کے مقابلے میں 70 ٹکے شرح تبادلہ ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے دوسری تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق ہری مرچ کی قیمت میں 141 فیصد اضافہ، پیاز 39فیصد مہنگے اور مٹر کی قیمت میں 27 فیصد اضافہ ہو ہے ۔

(جاری ہے)

ٹماٹر 18فیصد، چکن اور کیلے 15 فیصد اور دال مونگ کی قیمت 12 فیصد بڑھی، ریل کے کرایوں میں 19 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ادویات ساز کمپنیوں نے اہم ادویات کی قیمتوں میں 200 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ یہ اعداد و شمار معیشت کی خوفناک منظر کشی کر رہے ہیں۔ جب کہ وزیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مزید سخت فیصلے لینے پڑیں گے۔ اگر یہ ساری صورتحال مدِ نظر رکھی جائے تو تبدیلی کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ ماضی کی طرح ایک بار پھر قربانی بے چارے غریب عوام سے مانگی جا رہی ہے۔ اور تبدیلی کہیں بھی نظر نہیں آ رہی۔ وزیر اعظم عمران خان کی دیانتداری اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی شدید خواہش پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا لیکن چند باتیں پھر بھی سمجھ سے باہر ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی معاشی ماہرین کی ٹیم پاکستان کی معیشت کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ اس حوالے سے حکومت کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد مرکز کے پاس فنڈز کی کمی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت اب ملک کی کل آمدن کا 57فیصد حصہ صوبوں میں آبادی کے تناسب سے تقسیم ہو جاتا ہے۔ درحقیقت گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں جو کام کئے گئے یا جو کام نہیں کئے گئے موجودہ خرابی کا شاخسانہ سمجھے جاتے ہیں۔ 18ویں ترمیم سے پہلے صوبوں کے فنڈز 42فیصد تھے مگر اضافے کے ساتھ صوبوں سے ذرائع آمدن نہیں بڑھائے گئے۔ 18ویں ترمیم میں صحت، تعلیم کے علاوہ کئی شعبے صوبوں کے دائرہ اختیار میں چلے گئے ہیں لیکن وفاقی حکومت بھی ان شعبوں پر اخرجات کر رہی ہے۔ وفاق کو ایک محدود رقم سے دفاعی اخراجات، قرضوں کی قسطیںاور ترقیاتی اخراجات کرنے پڑرہے ہیں۔ جس سے بچت کی شرح متاثر ہو رہی ہے۔ معاشی ماہرین کے خیال میں پاکستان اپنی قومی آمدنی کا 88 فیصد خرچ کر لیتا ہے اور اس میں سے صرف 12 فیصد بچاتا ہے جسکی سرمایہ کاری سے تین سے چار فیصد کی شرح سے ترقی ممکن ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ ہماری امپورٹ ایکسپورٹ میں فرق کا ہے۔ ملک سے 20ارب ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں 30 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ جاری ہے۔جبکہ سابقہ حکومت نے بیرونی و اندرونی قرض کا اپنے پیچھے بوجھ چھوڑا ہے۔ قرضوں کی واپسی کیلئے اب موجودہ حکومت کو مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ جس سے معیشت مزید دباؤ کا شکار ہے ۔ ان حالات میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وزیرِ اعظم کاخلوص شک و شبہ سے بالا ہے ، ان کے پاس محبِ وطن معاشی ماہرین بھی موجود ہیں۔ معیشت کی ترقی کے لئے سمت کے تعین کے ساتھ بے یقینی کے خاتمے کی ضرورت ہے جس کی بناء پر یہاں بیرونی سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ لہٰذا اے ڈی بی کی رپورٹ کے مطابق ملکی معیشت میںجب تک میکرو اکنامک کا توازن برقرار نہیں ہوتا تب تک معاشی شرح نمو میں کمی، مہنگائی میں اضافہ اور روپے کی قدر پر دباؤ رہے گا۔ اور 2019ء میں شرح نمو خطے کی کم ترین سطح3.9 فیصد رہے گی جو 2020ء میں 3.6 فیصد ہو سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

tabdeeli ke daaway aur muashi mahireen ka maeeshat ke sath salooq is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 April 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.