تنازع کشمیر پر امریکہ و برطانیہ کے جھوٹے وعدے

جولائی 1962ء میں بیجنگ اور راولپنڈی‘اسلام آباد کے درمیان نقشوں کا تبادلہ ہوا

ہفتہ 2 جنوری 2021

Tanazea Kashmir Per America UK K Jhoote Wadde
زاہد شفیق طیب
تنازع ریاست جموں و کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس دسمبر 1951ء میں ڈاکٹر فرنیگ گراہم کی رپورٹ پر بحث کیلئے طلب کیا گیا جس پر بحث کرتے ہوئے روسی نمائندے جیکب ملک نے امریکہ اور برطانیہ پر الزام لگایا کہ وہ اپنے مفادات کیلئے ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے میں مداخلت کر رہے ہیں۔روسی نمائندے نے سوال کیا کہ تنازع کشمیر کا حل کیوں نہیں ہو رہا،امریکہ اور برطانیہ کی تجاویز کیوں نتیجہ خیز نہیں،وجہ یہ ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنا نہیں بلکہ اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جموں و کشمیر کو اینگلو امریکن نو آبادی بنا دینا چاہتے ہیں۔

جیکب ملک نے کہا کہ روسی حکومت چاہتی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو موقع دیا جائے کہ وہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کا فیصلہ بغیر کسی مداخلت کے اپنی رائے سے خود کریں۔

(جاری ہے)

1948ء میں پاکستان نے سوویت یونین سے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا تو سٹالن نے نیک شگون قرار دیتے ہوئے وزیراعظم لیاقت علی خان کو دورہ ماسکو کی دعوت دی۔1949ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان ماسکو کا دورہ منسوخ کرکے اچانک امریکہ جا پہنچے۔


پاکستان نے پہلے بغداد پیکٹ پھر سیٹو معاہدے میں شمولیت کرلی،روس نے اس کی سخت مخالفت کی۔روس نے تنازع جموں و کشمیر میں عنوان کی تبدیلی سے لے کر ابتداء میں ہر سطح پر مسئلہ کشمیر کے حل کو کشمیری عوام کے حق خودارادیت سے مشروط کرنے پر زور دیا لیکن لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ سے روس نے ناراض ہو کر جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے دیا یہی نہیں بلکہ روس کے صدر اور وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرکے ریاست کو بھارت کا آئینی حصہ قرار دے دیا۔

روس کی طرف سے ہنگری اور چکوسلواکیہ کی عوامی تحریکوں کو فوجی طاقت سے دبانے پر بھارت کی خاموشی کے بدلے روس نے 1957ء اور 1962ء میں سلامتی کونسل میں تنازع جموں و کشمیر پر پیش ہونے والی قرار دادوں کو ویٹو کر دیا۔1962ء میں چین بھارت جنگ کے دوران چین نے پاکستان سے بار بار اصرار کیا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کو آزاد کروائے لیکن امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے یہ یقین دہانی کرائی کہ وقت آنے پر وہ تنازع کشمیر حل کروا دیں گے لیکن امریکہ،برطانیہ کے جھوٹے وعدے پورے نہ ہوئے۔


19 ویں صدی میں جہاں روس توسیع پسندانہ نظریات کے پس منظر میں وسط ایشیاء کی ریاستوں پر قبضہ کر رہا تھا وہاں برطانوی سامراج بھی دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔روس نے 1824ء میں قازقستان،1831ء میں آذربائیجان۔1861ء میں تاشقند،1882ء میں بخارا،اور 1873ء میں خیوا کو تسخیر کرکے اپنے ساتھ شامل کر لیا۔روس نے 1882ء میں چینی ترکستان(سنکیانگ)پر قبضہ کرکے روس میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا تو روسی حکومت نے جموں و کشمیر رنبیر سنگھ سے سنکیانگ کے خلاف مہم میں مدد مانگی تورنبیر سنگھ نے صاف انکار کر دیا۔

جموں و کشمیر کے ڈوگر و حکمرانوں کو روسی یا برطانوی سامراج کے توسیع پسندانہ عزائم سے کوئی سروکار نہیں تھا لیکن گلاب سنگھ کی حکومت کشمیر اور لداخ کے راستے انگریزوں کے وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوششوں کو پسند نہیں کرتی تھی اس کے برعکس وہ وسط ایشیاء کی ریاستوں سے براہ راست تجارتی و سیاسی تعلقات قائم کرنا چاہتی تھی۔

چین تنازع جموں و کشمیر پر ہمیشہ غیر جانبدار رہا اس نے کبھی بھی بھارت کی حمات نہیں کی۔1951ء میں چین کا ثقافتی وفد بھارت کے دورے پر گیا لیکن سری نگر کا دورہ منسوخ کر دیا۔
بھارت اور چین کے درمیان سرحدی معاملات پر مذاکرات کے دوران چین نے پاکستان کے زیر کنٹرول آزاد جموں و کشمیر کی سرحدوں کے بارے میں تنازع کے حل ہونے تک کوئی بھی بات کرنے سے صاف انکار کر دیا۔

15 جنوری 1961ء کو پاکستان کے وزیر خارجہ منظور قادر نے اعلان کیا کہ پاکستان اور چین نے سرحدوں کی نشاندہی پر اصولی اتفاق کر لیا ہے جس پر بھارت نے زبردست احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی کوئی سرحد چین سے نہیں ملتی جس کی نشاندہی کی جائے۔ریاست جموں و کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔صدر ایوب خان نے بھارت کا احتجاج مسترد کر دیا۔دسمبر 1961ء میں چین کے سفیر ڈنگ گولو نے ایوب خان کے ساتھ سرحدوں کے تعین پر بات چیت کا آغاز کرتے ہوئے سرکاری طور پر کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔

جولائی 1962ء میں بیجنگ اور راولپنڈی،اسلام آباد کے درمیان نقشوں کا تبادلہ ہوا۔13 اکتوبر 1962ء کو مذاکرات کا آغاز ہوا۔26 اکتوبر 1962ء کو چینی حکومت نے اعلان کیا کہ چین اور پاکستان کے درمیان اتفاق رائے سے معاہدہ طے پا گیا ہے۔
2 مارچ 1963ء کو پاک چین سرحدی معاہدے پر دستخط ہوئے۔چینی وزیر خارجہ چن ژی نے بیجنگ میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے میں ریاست جموں و کشمیر کے سوال پر خصوصی توجہ دی گئی ہے،جموں و کشمیر کا مستقبل ابھی تک حل طلب ہے۔

چینی حکومت نے سنکیانگ کو تبت سے ملانے کیلئے اقصائے چین (13 ہزار مربع میل خالصتاً ریاست جموں و کشمیر کا علاقہ)سے 1954ء سے 1957ء کے مابین 3 برس کے دوران ایک شاہراہ تعمیر کی، بھارت نے احتجاج کیا تو چو این لائی نے جواب دیا سنکیانگ تبت روڈ چینی علاقے سے گزرتی ہے،بھارت نے چین کے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔بھارت نے اقصائے چین میں تیزی سے عسکری سرگرمیوں میں اضافہ کیا 43 نئی فوجی چوکیاں قائم کی گئی۔1947ء سے لے کر آج تک تنازع جموں و کشمیر کے حوالے سے چین کی پالیسی واضح ہے،چین نے بار بار اپنے موٴقف کو دہرایا کہ جموں و کشمیر کا تنازع کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے گا۔چین نے کبھی بھی جموں و کشمیر پر بھارت کے استحقاق کو تسلیم نہیں کیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tanazea Kashmir Per America UK K Jhoote Wadde is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 January 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.