ترقی یافتہ ممالک میں گھریلو ملازماؤں کا استحصال

سنگاپور کی ایڈ ایجنسی نے خادماؤں کو’برائے فروخت‘پیش کیا

بدھ 10 مارچ 2021

Taraqi Yafta Mumalik Mein Gharelo Mulazmaon Ka Istehsaal
بشریٰ شیخ
سنگاپور میں آن لائن شائع ہونے والے بعض اشتہارات کو غیر ذمہ دارانہ مارکیٹنگ کے ساتھ ساتھ انسانی اسمگلنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ گھریلو ملازمائیں ’اشیائے تجارت‘بن گئیں ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق سنگاپور میں 250,000 سے زائد غیر ملکی گھریلو ملازمائیں موجود ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر کا تعلق انڈونیشیا سے ہے جو زیادہ تنخواہوں کے لئے اس متمول ریاست کا رُخ کرتی ہیں۔اس کے علاوہ سنگاپور کے سخت قوانین کا بھی یہی مطلب ہے کہ وہاں ایسی کام کرنے والی خواتین کے لئے ماحول اور سہولیات ملائیشیا یا مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بہتر ہیں۔تاہم ملازمتوں کے حوالے سے ایک ایڈ ایجنسی کی طرف سے دیے گئے درجنوں ایسے اشتہارات وجہ تنازعہ بن گئے جن پر الزامات لگائے گئے کہ ان میں گھریلو کام کرنے والی ان خواتین کو ایک ایجنسی نے بطور قابل فروخت اشیاء پیش کیا ہے ۔

(جاری ہے)

سنگاپور کے مقامی میڈیا کے مطابق اس ایجنسی نے 50 ایسے آن لائن اشتہارات دیے جن میں گھریلو ملازماؤں کو’برائے فروخت‘ پیش کیا گیا۔2006ء میں ایسی خواتین کو سنگاپور کے ایک شاپنگ سینٹر میں باقاعدہ قطار میں کھڑا کرکے فروخت کے لئے پیش کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ بعض اپارٹمنٹس کی فروخت کے ساتھ انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والی دو گھریلو ملازماؤں کی مفت فراہمی کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔


 مائیگرینٹ کیئر کے سینٹر آف مائیگریشن کے مطابق انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے ورکرز کے لئے بیرون ممالک ملازمت حاصل کرنے کے قانونی طریقے کے مطابق یہ لازمی ہے کہ ان کے پاس باقاعدہ کانٹریکٹ ہو جس میں مستقبل کے آجر کا نام اور پتہ واضح طور پر درج ہو۔یعنی انہیں ملک چھوڑنے سے قبل ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہاں ملازمت کریں گی۔ تاہم سنگاپور میں آن لائن اشتہارات کا مطلب ہے کہ وہاں یہ قانونی تقاضہ پورا نہیں کیا جاتا۔

سنگاپور میں گھریلو ملازمین سے انتہائی بد سلوکی اور پھر قتل کے ایک خوفناک واقعے میں مرکزی ملزمہ نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔بھارتی نژاد ملزمہ نے اپنی غیر ملکی ملازمہ کو اس طرح قتل کیا،جس کی شاید ہی کوئی دوسری مثال موجود ہو۔سنگاپور جنوب مشرقی ایشیا کی ایک ایسی بہت چھوٹی سی لیکن انتہائی امیر شہری ریاست ہے،جہاں ایشیا کے زیادہ تر غیر ممالک سے آکر گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد تقریباً ڈھائی لاکھ بنتی ہے۔

یہ ملازمین زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں اور ان سے بد سلوکی کے واقعات بھی کوئی نئی بات نہیں ہیں۔لیکن 40 سالہ گائتری موروگیان نے جس طرح کے جرائم کا ارتکاب میانمار سے تعلق رکھنے والی اپنی 24 سالہ ملازمہ کے ساتھ کیا،اس کی سنگاپور میں غیر ملکیوں کے خلاف جان لیوا جرائم کی تاریخ میں شاید ہی کوئی دوسری مثال موجود ہو۔ گائتری موروگیان نے سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ وہ اپنی گھریلو ملازمہ پیانگ گائے ڈون کے قتل کی مرتکب ہوئی تھی۔

ملزمہ نے اعتراف جرم کرتے ہوئے ایک مقامی عدالت میں دیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ اس نے مقتولہ ملازمہ پر چھری سے حملے کیے تھے،اسے ڈنڈوں سے پیٹا تھا، اس کا جسم استری سے جلایا تھا اور پھر اس کا گلا اتنا دبایا تھا کہ پیانگ گائے ڈون کا انتقال ہو گیا تھا۔
موروگیان کو قتل کے اس ایک جرم سے متعلق اپنے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کے 28 مختلف الزامات کا سامنا ہے۔

ملزمہ کی سزا کم از کم عمر قید ہو سکتی ہے۔عدالت میں پیش کردہ دستاویزات کے مطابق ملزمہ گائتری موروگیان اور اس کے شوہر نے،جو ایک پولیس افسر ہے، پیانگ گائے ڈون کو اپنے ہاں 2015ء میں اس لئے ملازم رکھا تھا کہ وہ ان کی چار سالہ بیٹی اور ایک سالہ بیٹے کی دیکھ بھال کر سکے۔اس کے بعد ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک گائتری موروگیا ن اپنی اس ملازمہ کو ہر روز پیٹتی رہی۔

کبھی کبھی تو دن میں کئی کئی مرتبہ اور اس جرم میں گائتری کی 61 سالہ ماں بھی شامل ہو جاتی تھی۔یہ انہی خوفناک مظالم اور تشدد کا نتیجہ تھا کہ پیانگ گائے ڈون جولائی 2016ء میں اس وقت انتقال کر گئی تھی،جب ایک روز ملزمہ گائتری اسے’پاگلوں کی طرح‘کئی گھنٹوں تک پیٹتی،اس پر حملے کرتی،اسے ایذا پہنچاتی اور اس کا جسم استری سے جلاتی،رہتی تھی۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق گائتری موروگیان پیانگ گائے ڈون پر اتنا ظلم کرتی تھی کہ اسے کھانے کے لئے خوراک بہت کم دی جاتی تھی، سونے کے لئے وقت بھی بہت ہی کم اور ملزمہ کے گھر ملازمت کے صرف ایک سال کے اندر اندر میانمار سے تعلق رکھنے والی اس جوان عورت کا جسمانی وزن تقریباً 40 فیصد کم ہو گیا تھا۔


خواتین کا استحصال صرف انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں اور ان سے جسم فروشی کروانے والے جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں ہی نہیں ہوتا۔ایسے عناصر میں کبھی کبھی غیر ملکی سفارتکار اور ان کے اہل خانہ بھی شامل ہوتے ہیں۔یہ سفارتکار اور ان کے اہل خانہ اپنے ہاں کام کرنے والی گھریلو ملازماؤں کی مالی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے،ان سے غیر انسانی حد تک مشقت لیتے ہیں اور اکثر ان کے یہ جرائم منظر عام پر بھی نہیں آتے۔

جرمنی میں متعین ایک سعودی سفارتکار کے گھر پر کام کرنے والی ایک ملازمہ کے ساتھ بھی اس سعودی شہری کے مجموعی طور پر سات افراد پر مشتمل خاندان نے طویل عرصے تک ایسا ہی سلوک کیا،جس کی تفصیلات نے ہر کسی کو پریشان کر دیا۔جرمن دارالحکومت برلن میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی بان ینگ نامی تنظیم کی ایک خاتون اہلکار نیویدتا پرشاد کہتی ہیں”دیوی رتبشاری کو اکثر اس کا آجر سعودی اہلکار،اس کی بیوی اور بچے بھی پیٹتے تھے۔

کبھی ہاتھوں سے اور کبھی مختلف اشیاء کے ساتھ۔اس کی ہمیشہ تذلیل کی جاتی تھی۔اسے کبھی بھی اس کا نام لے کر نہیں پکارا جاتا تھا،بلکہ گالی دے کر۔“
نیویدتا پرشاد کہتی ہیں کہ ان کی تنظیم کو جب دیوی رتبشاری کے حالات کا علم ہوا تو اس نے موقع ملنے پر ایسے استحصال زدہ انسانوں کی مدد کرنے والے اپنے ایک ماہر کارکن کے ذریعے بہت مشکل حالات میں اس انڈونیشی خاتون کو سعودی سفارتکار کے گھر سے نکالا۔

بان ینگ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک ایسی تنظیم ہے،جو ایسی بہت سی غیر سرکاری تنظیموں کے ایک یورپی نیٹ ورک کا حصہ ہے۔اس تنظیم کا برلن میں قائم مشاورتی مرکز ہر سال اوسطاً ایسی دس خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو ملازمت کے نام پر تشدد و نوعیت کے استحصال کا شکار ہو چکی ہوتی ہیں۔جرمن ادارہ برائے انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والی ایک ماہر ہائیکے رآبے کہتی ہیں کہ کسی ملازم یا ملازمہ کو پیٹنا اور اسے بند کیے رکھنا صرف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ غلامی پر پابندی کے بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔

کسی ملازم سے زیادہ کام کروا کر اسے کم یا بالکل کوئی اجرت ادا نہ کرنا بھی یورپی ملکوں کے اقتصادی اور سماجی قوانین کے منافی ہے۔ہائیکے رآبے کہتی ہیں کہ سفارتی اہلکاروں کو ان کے میزبان ملکوں میں اپنے خلاف قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ ہائیکے رآبے کہتی ہیں”ایسے کسی بھی واقعے میں متاثرہ انسان قانونی طور پر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔دیوی رتبشاری کے لئے عملی طور پر پوری دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں،جہاں وہ اپنے حقوق کا قانونی مطالبہ کر سکے۔“

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Taraqi Yafta Mumalik Mein Gharelo Mulazmaon Ka Istehsaal is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 March 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.