تیسری جنگ عظیم یا محض لفظوں کی جنگ!

کئی دفاعی تجزیہ نگاروں اور چینی حکام کے مطابق موجودہ کشیدگی امریکہ اورچین کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتی ہے ۔ دونوں ممالک کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کا شکار ہیں ۔ چین اس امتحان سے گزر چکا جبکہ امریکہ میں کرونا وائرس کی تباہ کاریاں شدت سے جاری ہیں

Naeem Kandwal نعیم کندوال بدھ 13 مئی 2020

teesri jang azeem ya mehez lafzon ki jung !
چین کے صدر شی جن پنگ کوقومی سلامتی کی وزارت نے گزشتہ ماہ ایک رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ موجودہ کشیدگی میں امریکہ سے جنگ ہو سکتی ہے۔ پچھلے ہفتے چین کی وزارتِ خارجہ نے خطے میں فوجی نقل و حرکت کی وجہ سے واشنگٹن کو خبردار کیا۔چینی حکام کے مطابق امریکہ بحر ہند اور بحر الکاہل میں جدید ترین میزائل نصب کر رہا ہے۔ چینی فوج کے ترجمان نے بھی کہا کہ ان کا ملک اس معاملے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

ان تمام تر واقعات کے پیش نظر کئی دفاعی ماہرین اور تھنک ٹینکس دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ تیسری عالمی جنگ کی پیشنگوئی کر رہے ہیں۔ایسی ہی ایک پیشنگوئی 2017ء میں بین الاقوامی امور کے پروفیسرگراہم ایلیسن اپنی کتاب ” جنگ جس سے فرار نہیں “ میں کر چکے ہیں۔موجودہ کشیدگی کی وجہ covid-19ہے ۔

(جاری ہے)

کیونکہ امریکی حکام کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار چین کو قرار دے چکے ہیں۔

امریکی حکام کے مسلسل متنازعہ بیانات کی وجہ سے کشید گی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ 
31 جنوری 2020ء کو امریکہ کے سیکرٹری برائے تجارت ولبر روس نے بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہاتھا کہ چین میں پھیلنے والا کرونا وائرس امریکی معیشت کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔ اس کے بعد امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے طنزاََ کروناوائرس کو ووھان وائرس کا نام دیا۔

پومپیو کے اس متنازعہ بیان کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے محاز سنبھال لیا۔ صدر ٹرمپ نے بھی کرونا وائرس کو چائنہ وائرس کا نام دیا۔ بلکہ صدر ٹرمپ نے چین کونتائج بھگتنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ امریکی صدر نے عالمی ادارہ صحت کو بھی نشانے پر رکھا اور اسے بھی چین کے ساتھ ملوث قرار دے کر اسکی فنڈنگ بند کر دی ۔
کئی دفاعی تجزیہ نگاروں اور چینی حکام کے مطابق موجودہ کشیدگی امریکہ اورچین کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتی ہے ۔

دونوں ممالک کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کا شکار ہیں ۔ چین اس امتحان سے گزر چکا جبکہ امریکہ میں کرونا وائرس کی تباہ کاریاں شدت سے جاری ہیں۔ امریکہ میں 24گھنٹوں میں اوسطاََ 2ہزار لوگ مر جاتے ہیں۔ جہاں تک چین کی بات ہے تو یہ امن پسند ملک ہے ۔ چین کو جنگ پسند ملک نہیں کہا جاسکتا۔ چین کی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کا راز بھی یہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر امریکہ کو معاشی اور دفاعی اعتبار سے خطرہ ہے تو صرف چین سے ہے ۔

یعنی امریکہ کی اجارہ داری کو چین ہی ختم کر سکتا ہے۔ خصوصاََ پچھلے کچھ عرصہ سے چین کی زبردست معاشی ترقی امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی تصور کی جاتی ہے۔ امریکہ کی اجارہ داری کا خاتمہ محض معیشت کی بنیاد پر ہو گا۔ اور چین امریکہ کو معاشی جنگ میں شکست دیتا نظر آرہا ہے۔
ہم موجودہ کشیدگی کو دو تناظر سے دیکھ سکتے ہیں۔پہلا یہ کہ امریکہ میں کرونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں ۔

امریکہ کی معیشت تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے ۔ covid-19سے پہلے ہی امریکہ کو غربت اور بے روزگاری کا سامنا تھا۔ اور اب کرونا وائرس نے تو اِس پر ایک اور کاری ضرب لگا دی ہے ۔ امریکہ میں کرونا وائرس شروع ہونے سے پہلے ہی امریکی ماہر اقتصادیات میشل میئر نے کہا تھا کہ نوکریاں ، دولت اور اعتماد سب ختم ہو جائے گا ۔جبکہ بینک آف امریکہ خدشہ ظاہر کر چکا ہے کہ بے روزگاری کا تناسب دو گنا بڑھ جائے گا، جس کے بعد تقریباََ ہر ماہ ایک ملین نوکریاں ختم ہو جائیں گی۔

تاریخ کی بد ترین صورتحال سے متاثر امریکہ اپنے معاشی حریف چین کو دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے تا کہ اس کی توجہ معاشی ترقی پر کم رہے جو کہ امریکہ کے لیے تباہ کُن ہے ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخابات کے لیے مہم کسی حد تک شروع ہو چکی ہے ۔ امریکی صدر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے چین پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ وہ اس الزام تراشی کو ایک ہتھیا ر کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

یعنی وہ عوام کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چین پر الزام تراشی کر کے الیکشن میں ہونے والے یقینی نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک لفظوں کی جنگ کی بات ہے تو اس کو اتنا سنجیدہ نہیں لینا چاہیے کیونکہ امریکی صدر غیر سنجیدہ بیانات کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ بعض اوقات تو اُن کے غیر سنجیدہ بیانات دشمن کے فائدے کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔

حال ہی میں پیو ریسرچ نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق صرف 29فیصد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ عالمی امور پر درست اقدامات کر سکتے ہیں۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاامریکہ اور چین کے درمیان جاری لفظی جنگ تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے ۔ یہ بات طے ہے کہ کرونا وائرس کی موجودہ تباہ کاریوں میں کوئی بھی ملک جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

خاص طور پر امریکہ جہاں 80ہزار کے قریب لوگ کرونا وائر س کی وجہ سے مر چکے ہیں۔ امریکہ کی معیشت منہ کے بل گر چکی ہے ۔ ایشائی ترقیاتی بینک عالمی معیشت کو 347 ارب ڈالر کے نقصانات کا خدشہ ظاہر کر چکا ہے ۔ امریکی صدر کی مسلسل بیان بازی اور الزام تراشی کا مقصد محض اپنی ناکامیوں کو چھپانا ہے تا کہ آئندہ الیکشن میں ممکنہ ناکامی کوکامیابی میں بدلا جاسکے۔ میرے خیال میں موجودہ لفظوں کی جنگ محض لفظوں کی جنگ ہی رہے گی۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

teesri jang azeem ya mehez lafzon ki jung ! is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 May 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.