
ضرب عضب اور اداروں کا کردار
پاکستان گزشتہ پندرہ سالوں سے حالت جنگ میں ہے۔ مقروض اور غریب پاکستان اس جنگ میں اندوہناک جانی اور مالی قربانی دے چکا ہے۔ یہ جنگ ہنوز جاری ہے۔ ہولناک سانحہ کوئٹہ گواہی دے رہا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ طویل عرصہ لڑنی پڑے گی
جمعرات 18 اگست 2016

پاکستان گزشتہ پندرہ سالوں سے حالت جنگ میں ہے۔ مقروض اور غریب پاکستان اس جنگ میں اندوہناک جانی اور مالی قربانی دے چکا ہے۔ یہ جنگ ہنوز جاری ہے۔ ہولناک سانحہ کوئٹہ گواہی دے رہا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ طویل عرصہ لڑنی پڑے گی افسوس پاکستان کو جنگ میں مبتلا کرنے والا جرنیل آئین اور قانون کی گرفت سے بچ کر بیرون ملک جاچکا ہے۔ بقول ظہیر کاشمیری :۔
ربط اتنا نہ بڑھا سایہ دیوار کے ساتھ
(جاری ہے)
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر حکومتی گورنینس پر بولتے اور چیختے سوالات اٹھائے جارہے ہیں جن کا وزیراعظم پاکستان نے کبھی براہ راست جواب بھی نہیں دیا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ سویلین حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کیا جس کا اعتراف وزیراعظم نے مانیٹرنگ کیلئے ٹاسک فورس بنا کر کرلیا ہے۔ آئینی طور پر وزیراعظم نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے ذمے دار تھے مگر وہ حالت جنگ کے باوجود اپنی ذمے داری پوری کرنے سے قاصر رہے ہیں جسے مجرمانہ غفلت قراردیا جائیگا۔ وزیراعظم نے قوم کو کبھی بریف نہیں کیا کہ 2013ء سے 2016ء تک کتنے دہشت گردوں کو سول عدالتوں سے سزائیں دلائی گئی ہیں۔ کرمنل جسٹس کو فعال اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے عدالتی اصلاحات میں تاخیر کیوں کی جارہی ہے۔ پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ کی مدت 15جولائی سے ختم ہوچکی ہے جسکے تحت ہوم منسٹر پنجاب شجاع خانزادہ شہید کے مقدمہ سمیت دہشت گردی میں ملوث مجرموں کے خلاف مقدمات چلائے جارہے ہیں۔ وزارت قانون کی سمری وزیراعظم کے سیکریٹریٹ میں پڑی ہے۔ ابھی تک فاٹا اصلاحات کی منظوری زیرالتواء ہے۔ مردم شماری اور مقامی حکومتوں کا قیام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سنگدلانہ بے حسی کا شکار ہے۔ حکومت ابھی تک پولیس کو اس قابل نہیں بناسکی کہ وہ فوج کے تعاون کے بغیر امن و امان کے قیام کی بنیادی ذمے داری پوری کرسکے۔ رینجرز کے اختیارات کے سلسلے میں عسکری قیا دت کو زچ کیا جاتا ہے۔ فوج کو سندھ اور پنجاب میں آپریشن کرنے سے روکا جاتا ہے۔ نیکٹا کو غیر فعال رکھا جاتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں مدارس کی رجسٹریشن اور نصاب میں تبدیلی کی سکت نہیں ہے۔ ان تشویشناک حالات میں آرمی چیف کی حکومت کی کارکردگی پر دوسری بار تنقید بلاجواز نہیں ہے۔ عوام کے خون پسینہ کی کمائی سے لڑی جانے والی طویل جنگ کی قیادت کرنیوالے سپہ سالار کا فرض ہے کہ وہ جنگ کے مراحل کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لیں۔عدلیہ کے جج بھی حکومتی کارکردگی کے بارے میں آئے روز شدید تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ حکومت اگر اپنے حصے کا کام جذبے اور جنون کے ساتھ مکمل کرتی تو سانحہ کوئٹہ کی ذمے داری خفیہ ایجنسیوں پر ڈالی جاسکتی تھی۔ وزیراعظم اگر خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں تو وہ اپنے اتحادیوں سے ان پر الزام تراشیاں کرانے کی بجائے ایجنسیوں کے سربراہوں کو تبدیل کردیں مگر وہ اپنی یہ آئینی ذمے داری شاید پوری کرنے کے اہل نہیں رہے کیونکہ وہ ایک کمزور وزیراعظم ثابت ہوئے ہیں۔ انکی اخلاقی اتھارٹی مجروح اور آئینی رٹ محدود ہوچکی ہے۔
جب ملک حالت جنگ میں ہو تو چیک اینڈ بیلنس کا نظام فعال بنانا پڑتا ہے۔ ادارے ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتے ہیں اور کارکردگی کی نگرانی بھی کرتے ہیں تاکہ جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔ جب سول حکومت آئینی ذمے داریاں پوری کرنے سے قاصر رہتی ہیں تو طاقتور ادارے کو آئینی دائرے سے باہر نکلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ بھارت کے وزیراعظم مودی نے بلوچستان اور گلگت بلتستان کے بارے میں گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیان دیا ہے جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی تشویشناک صورتحال سے توجہ ہٹانا ہے۔ وزیراعظم پاکستان بوجوہ مودی کے خلاف بیان دینے سے گریز کرتے ہیں۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کا دم غنیمت ہے جن کا سب کچھ پاکستان میں ہے انکے خلاف کوئی اخلاقی اور مالی سکینڈل نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ قومی مفادات کی بے باک ترجمانی کرتے ہیں۔ انہوں نے بھارت کے وزیرداخلہ کے سامنے بھی آنکھیں نیچی نہ کیں اور کشمیریوں کا مقدمہ جرات مندی سے پیش کیا۔ موزوں شخصیت جنرل(ر) ناصر جنجوعہ کو نیشنل ایکشن پلان مانیٹرنگ ٹاسک فورس کا چیئرمین بنادیا گیا ہے تاکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اگر بدستور غفلت کا مظاہرہ کرتی رہیں تو اسکی ذمے داری پاک فوج کے نمائندے پر ڈالی جا سکے۔ ”تیرے ذہن کی قسم خوب انتخاب ہے“(حبیب جالب)۔ وزیراعظم اختیارات تو خود استعمال کرتے ہیں مگر ذمے داریاں شفٹ کرتے رہتے ہیں۔ ہر بڑے قومی سانحہ کے بعد سیاسی نظریہ ضرورت کے تحت نمائشی فیصلے کرنے سے دہشتگردی کیخلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانا ممکن نہیں ہوگا۔ سانحہ کوئٹہ تقاضا کرتا ہے کہ جنگی قومی حکومت قائم کی جائے جس میں ایسے سچے کھرے اہل اور محب الوطن افراد شامل ہوں جو پاکستان کیلئے اپنا تن من دھن قربان کرنے کیلئے تیار ہوں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
-
”منی بجٹ“غریبوں پر خودکش حملہ
-
معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں
-
احتساب کے نام پر اپوزیشن کا ٹرائل
-
ایل این جی سکینڈل اور گیس بحران سے معیشت تباہ
-
حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم
مزید عنوان
Zarb e Azb or Idaroon Ka Kirdar is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 August 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.