کرونا، ٹڈی دل، تحفظِ خوراک

اتوار 7 جون 2020

Afzaal Chaudhry Maleera

افضال چوہدری ملیرا

کسی بھی دن کو منانے کا مقصد اس مسئلہ کے حوالے سے لوگوں میں شعور بیدار کرنا ہوتا ہے تاکہ لوگ ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ اس مسئلہ کے حل کے لیے تگ و دو کریں
7 جون 2019ء کو دنیا بھر میں پہلا تحفظِ خوراک کا دن منایا گیا اس دن کو منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی متفقہ رائے اور مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اس دن کو منانے کا مقصد صرف تحفظ خوراک نہیں بلکہ تحفظ زندگی بھی ہے دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ خوراک کی کمی اور آلودہ خوراک کھانے کی وجہ سے مر جاتے ہیں
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر سال 10 میں سے ایک شخص آلودہ کھانا کھانے کی وجہ سے بیمار ہوتا ہے اور آلودہ خوراک 200 سے زائد بیماریوں کی وجہ بنتی ہے اور اسی آلودہ خوراک کی وجہ سے پیدا شدہ بیماریاں لوگوں کی موت کا سبب بنتی ہیں
دنیا کے کئی بڑے فلاسفرز اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ "انسان فطرتاً لالچی ہے" یہی لالچ انسان کے دل سے انسانیت کا احساس ختم کر دیتا ہے اور وہ خوراک کو دوگنا کرنے اور زیادہ منافع کی غرض سے اس میں ان چیزوں کی ملاوٹ کرتا ہے جو مضرِ صحت ہیں اور یہ اسی لالچ کا ہی نتیجہ تھا کہ 2000ء میں چین میں بچوں کے دودھ میں ملاوٹ کی وجہ سے 3 لاکھ بچے بیمار ہوئے جبکہ 6 بچوں کو زندگی نے مزید مہلت نہیں دی۔

(جاری ہے)

  کراچی کے مقامی ریسٹورنٹ میں دو بھائیوں، احمد اور محمد کی زہریلا  کھانا کھانے کی وجہ سے موت کے سانحہ سے بھی سب لوگ بخوبی واقف ہیں
اگر ہم سندھ میں واقع صحرائے تھٙر کی بات کریں تو یہ پاکستان کا نہایت نایاب ریگستان ہے جس کی سر زمین میں گیس، سیاہ کوئلہ اور چینی مٹی جیسے انمول خزانے ہیں   لیکن افسوس کی یہاں پر خوراک اور پانی کی قلت کی وجہ سے کئی کٙم سِن بچے پیدا ہونے کے چند دن بعد زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں۔

روایتی لباس میں ملبوس یہاں کی عورتوں کو اپنی اور اپنے بچوں کی پیاس بجھانے کے لیے سروں پر گھڑے رکھ کر کئی میلوں تک سفر کرنا پڑتا ہے پچھلی ایک دہائی سے اس نایاب تھر کے پھول اور کلیاں مرجھا چکے ہیں تھرپارکر کے لوگ جو کہ پہلے موروں کا رقص دیکھتے تھے اب موت کا رقص دیکھتے ہیں
ایک دفعہ تو سندھ کے وزیر اعلی نے تھرپارکر میں کٙم سِن بچوں کی موت کا ذمہ دار حاملہ عورتوں کو قرار دیا تھا جہاں ایک طرف سندھ کے وڈیروں کے دسترخوانوں پر وافر مقدار میں کھانا پایا جاتا ہے وہیں دوسری طرف تھرپارکر کے مفلس لوگوں کا دستر خواں کئی کئی پہروں تک خالی نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ تھرپارکر میں بیماری اور غضائی قلت کی وجہ سے موت نے پنجے گاڑ رکھے ہیں
کرونا کی وجہ سے پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کی پالیسی پر عملدرآمد کیا گیا تا کہ اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

لوگ خیال کر رہے تھے کہ یہ وائرس اور لاک ڈاؤن محض چند دنوں کے لئے ہے لیکن اب یہ دنوں سے مہینوں میں تبدیل ہو رہا ہے اور کسے خبر کہ یہ سالوں تک رہے کبھی مکمل لاک ڈاؤن ہوتا ہے تو کبھی سمارٹ لاک ڈاؤن لیکن اس کے مکمل خاتمے اور حالات زندگی دوبارہ نارمل ہونے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اب مفلس تو مفلس کئی سفید پوش افراد بھی تین پہروں کے کھانے کا بندوبست نہیں کر پا رہے اور کسے خبر کہ آنے والے دنوں میں غذائی قلت دنیا بھر میں کرونا سے بھی بڑی آفت بن کر ابھرے
ٹڈی دل کا حملہ بھی ہمارے ملک میں غذائی قلت پیدا کرنے میں کرونا کی معاونت کر رہا ہے ٹڈی دل لشکر کی صورت میں آتا ہے اور کئی کلومیٹر تک پھیلے کھیتوں کو پلک جھپکتے اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

صوبہ پنجاب کے شہر لودھراں کے ایک گاؤں کے رہائشی اسلام خان کے مطابق ٹڈی دل ان کے رقبے پر 25 منٹ کے قریب رُکا جس کے بعد 60 ایکڑ کے قریب کھیت پر کہیں کہیں ہی کوئی کپاس کا پودا سلامت بچا ہوگا۔
حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ ٹڈی دل کو روکنے کے لئے موثر  پالیسیاں مرتب کرے اور جس طرح پنجاب حکومت بڑے ہوٹلوں اور شادی ہالز سے بچ جانے والے کھانے کو مختلف جگہوں پر دستر خوان بچھا کر مستحق لوگوں میں تقسیم کرنے کی پالیسی بنائی ہے اسی طرح باقی صوبائی حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مستحق افراد کے لئے اس طرح کے اقدامات کریں اور انفرادی طور پر سب پاکستانیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو فاسٹ فوڈ پوائنٹ اور ہوٹلوں پر لے جانے کی بجائے گھر کا کھانا کھانے کا عادی بنائیں اور خوراک کا استعمال حسبِ ضرورت کریں۔

ہو سکتا ہے کہ جو کھانا امیروں کے لیے محض چند لقموں کی مانند ہے جسے وہ ضائع کر دیتے ہیں کسی غریب کے لیے تین پہر کا پیٹ بھر کھانا ہو
کاش! ہم لوگوں کے اندر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جیسی سوچ آ جاتی کہ "اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا یا پیاسا مر گیا تو قیامت کے روز حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جوابدہ ہونگے" اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو..!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :