ڈیرہ غازیخان میں طلباء کا احتجاج ختم

ہفتہ 30 جنوری 2021

Ahmad Khan Leghari

احمد خان لغاری

پورے پنجاب میں کرونا وبا کی وجہ آن لائن تعلیم کی وجہ سے طلباء طلابات وہ فیوض و برکات حاصل نہ کرسکے جیسا کہ فزیکل طور پر کلاس میں لکچرر کے دوران یا دیگر نوٹس کے ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی درست اور جائز ہے کہ ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سہولیات حاصل نہیں ہیں دور دراز علاقوں اور پہاڑی علاقوں میں یہ سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔

مجموعی طور پر طلباو طالبات کا نقصان ہوا ہے اور تعلیمی لحاظ سے دنیا بھر کے بچوں کی طرح پاکستان بھی ایسی مشکلات سے دو چار رہا ہے بلکہ اب بھی ہے۔ حکومت پاکستان نے طلبا و طالبات کی اس مجبوری کے پیش نظر فیصلہ کیا تھا کہ نویں اور گیارھویں کلاس کے بچوں کو بغیر سالانہ امتحان لیے اگلی کلاسز میں پروموٹ کر دیا جائے۔

(جاری ہے)

سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں وفاقی وزیر تعلیم زندہ باد کے نعرے بلند ہوئے اور غیر معینہ عرصہ تک اداروں کی بندش سے بھی ہمارے طلبا ذہنی اذیت سے بھی آزاد ہوگئے۔

طلبا و طالبات نے پاکستان بھر کی سیر و سیاحت کی، شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے لیے ریکارڈ قائم کیے۔ موبائل فون پر جہاں میسر ہوسکا اپنی مرضی اور پسند کے پروگرام دیکھتے رہے، ٹک ٹاک اور پب جی گیم سے بھی خوب لطف اندوز ہوئے۔
حکومت کی جانب سے یکم فروری کو تمام تعلیمی ادارے کھولنے کے اعلان کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی جاری ہوا کہ اس مرتبہ کسی طالب علم کو بغیر امتحانات کے اگلی کلاسز میں نہیں بھیجا جائیگا۔

یہاں سے بات بگڑی اور تقریباً تمام یورنیورسٹیز کے طلبا نے احتجاج شروع کردیا اور چند شہروں میں باقاعدہ ٹینٹ لگا کر دھرنے کی صورت حال پیدا کردی۔ ڈیرہ غازیخان کے طلبا نے بھی دیگر اداروں کے طلبا و طالبات کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر احتجاج کیا اور دھرنا دیا۔ ڈیرہ غازیخان کی غازی یونیورسٹی کے طلبا نے اپنے ادارے کے سامنے احتجاج شروع کیا جو بعد ازاں پھیلتا ہوا پل ڈاٹ یہ وہ سنگم چوک ہے جہاں چاروں صوبوں کی ہلکی اور بھاری ٹریفک رواں دواں رہتی ہے۔

طلبا کے اس احتجاج کی وجہ سے تمام راستے بند کر دیے گئے اور پھر چاروں صوبوں کی ٹریفک بند کرکے شہر سے باہر نکلنے والوں کے لئے بھی مشکلات پیدا کی گئی۔ دو دن اور راتیں یہ دھرنا جاری رہا۔ ایسے لگتا تھا کہ طلبا کی بات سننے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے۔ شہر کے ایم پی اے اور ایم این اے طلبا کو دلاسا دینے بھی نہ آئے۔ بلکہ نہ لیگی رہنما اس آگ کو مزید سلگانے اور شعلہ بنانے کے لئے میدان عمل میں نکل آئے۔

اسی دوران وائس چانسلر کے بارے میں اور طلبا کے درمیان قومیتی اور انسانی بنیادوں پر ایک مہم شروع ہوگئی جو انتہائی خطرناک بات تھی تاہم یہ معاملات ٹھنڈے پڑ گئے۔
قطع نظر طلبا کے دیگر مطالبات کے سب سے بڑا اور اہم مطالبہ یہی تھا کہ اگر آن لائن پڑھایا گیا ہے تو آن لائن امتحان بھی لیا جائے۔ نہ تو آن لائن تعلیم پوری طرح دی گئی اور نہ ہی آن لائن امتحانات قابل عمل مطالبہ ہے۔

افسوس یہ ہے کہ دیگر یونیورسٹیز کے احتجاج ختم ہوگئے لیکن ڈیرہ غازیخان میں یہ احتجاج اور دھرنا انتظامیہ کے مشورے اور نصیحت کے بعد واپس یونیورسٹی گیٹ پر آگیا۔ قریب ہی وائس چانسلر کا دولت خانہ تھا۔ طلبا کی طرف سے احتجاج ان کی رہائش گاہ کے سامنے تک پھیلنے کا اندیشہ لاحق ہوگیا۔ اسی رات تین روزہ اذیت کے بعد طلبا کا یہ اہم مطالبہ تسلیم کر لیا گیا اور وائس چانسلر کی جانب سے حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔

مطالبہ تسلیم کیے جانے کی اطلاع کوئی مقامی ایم پی اے یا ایم این اے طلبا تک پہنچاتا یا پھر ضلع و ڈویژنل انتظامیہ طلبا کا سامنا کرتے۔ کوئی بھی ایسی شخصیت نظر نہ آئی۔ وزیر اعلیٰ کے دست راست طور خان بزدار طلبا کو ان کے مطالبات کی منظوری کا مراسلہ لیکر پہنچ گیا۔ اس طرح احتجاج اور دھرنا ختم ہوگیا۔ طلبا کو شاید اس امر کا احساس تک نہ ہو لیکن اہل فکر و نظر شرمندہ شرمندہ نظر آئے۔

کاش کوئی سیاسی یا انتظامی شخصیت اس پورے احتجاج کو ختم کرنے میں کردار ادا کرتے۔ دوسری طرف کسی دوست نے کسی مظاہرے سے ایک تصویر بھیجی جس میں آن لائن کو اس طرح لکھا ہوا تھا۔ "onLine"اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ایسے طلبا کے لئے یہی جواب بنتا تھا کہ طور بزدار ہی مطالبات کی منظوری کا پروانہ پہنچائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :