Inferiority Complex and Road to Success ۔ قسط نمبر 2

بدھ 23 ستمبر 2020

Ahmed Adeel

احمد عدیل

سب سے پہلے آپ یہ فیصلہ کریں کہ آپ کا گول کیا ہے اور وہ کیسے اچیو ہو سکتا ہے یہاں ہم ایکExampleکو لے کر چلتے ہیں تا کہ سمجھنے میں آ سانی ہو ، آپ ایک Motivational Speakerکے لیکچر سے متاثر ہیں جو کسی انگریز سے کاپی کیے ہوئے فارمولے کو اپنے نام کے ساتھ آگے فاورڈکر رہا ہے اس کے ایک سو ایک بزنس آئیڈیاز میں سے آپ ایک کافی امپورٹ کر کے سیل کرنے والے آئیڈیا سے متفق ہیں کہ اس میں تھوڑی انویسٹ منٹ ہے اور پرافٹ کی شرح زیادہ ہے تو آپ کے خیال میں سب سے پہلا سٹیپ اس میں یہ ہو گا کہ آپ کافی سیل کرنے والوں کو گوگل پر سرچ کریں گے اور کون سی کافی کتنے میں ملتی ہے یہ سٹڈی کریں گے یا ان لوگوں کہ تلاش کریں گے جو آپ کے ممکنہ ریگولر گاہک بن سکیں، اصل میں یہ تینوںآ ئیڈیاز ہی غلط ہیں حالانکہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ یہی کرتے ہیں جو ہمیں Disappiontmentیا failureکی طرف لے جاتا ہے ، اس میں پہلا قدم ہماری پلاننگ ہو گی، اس پلاننگ میں پہلی چیز ان لوگوں سے دوری ہو گی جو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اس آئیڈیا پر ہنسیں گے یا اسے سرے ہی سے ریجکٹ کر دیں گے،ہماری سو سائٹی میں ایسے لوگوں کی بھر مار ہے جو مٹن کڑاہی پر پانچ ہزار خرچ کر سکتے ہیں لیکن بزنس لے لیے رسک لینا ان کے ڈی این اے میں نہیں اس لیے ایسے لوگ صرف اور صرف آپ کو مس گائیڈ کر سکتے ہیں لہذا کسی بھی چھوٹے یا بڑے کاروبار کی بنیاد رکھنے سے پہلے منفی سوچ یا کاروبار کی سوجھ بوجھ نہ رکھنے والوں سے دوری یا کم از کم ان سے اپنے آئیڈیاز شےئر نہ کرنا ضروری ہے، دوسری چیز اپنے آپ کو یقین دلانا ہو گی کہ میں یہ کر سکتا ہوں (اس کے لیے کسی self help بک کی قطع ضرورت نہیں نہ ہی کسی موٹی ویشنل رٹے رٹائے لیکچر کی) ، صرف اپنی قوت ارادی پر انحصار کریں اور spoon feedingسے جتنا پر ہیز ہو کامیابی کے اتنے ہی چانسز ہیں، تیسری چیز وقت ہے کا فی کے متعلق ریسرچ کے لیے، دنیا میں کافی کی مشہور اقسام کون سی ہیں اور پاکستان میں جہاں ابھی تک کافی انجوائے کرنے سے زیادہ سٹیٹس سیمبل ہے ، لوگ کون سی کافی پسند کر تے ہیں ، ان کافی کیفے کو وزٹ کریں جہاں لوگ ریگولر کافی پینے جاتے ہیں، کافی کے دانے کس حد روسٹ ہونے چاہیں اور ان کی فریش نیس کب تک رہ سکتی ہے ، پاکستان میں باہر سے کافی امپورٹ کر نے پر امپورٹ ڈیوٹی اور ٹیکس کی شرح کیا ہے، کون سے ملک سے آپ فریش روسٹڈ کافی بہترین پیکنگ میں اچھی پرائس پر مل سکتی ہے ، ایسے کئی بنیادی سوال آپ کی اپنی ریسرچ کے متقاضی ہیں۔

(جاری ہے)

ایک چھوٹا سا بزنس شروع کرنے کے لیے آپ کو کم سرمائے اور زیادہ ریسرچ کی ضرورت ہے کیونکہ کاروبار کے شروع میں ا پنی پراڈاکٹ سے متعلق آپ کا نالج اور آپ کے متاثر کن رویہ ہی آپ کے بزنس کی بیک بون ہو گا۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارے ہاں نوکریوں کے لیے لوگ دھکے کھاتے ہیں لیکن کاروبار کا کوئی کانسپٹ نہیں حالانکہ چند دنوں میں آپ کو کڑوڑ پتی بنانے کا دعوہ کرنے والے گرو کتابوں پر کتابیں لکھ رہے ہیں اور ایک ایک لیکچر کا دس لاکھ روپیہ چارج کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود نتیجہ صفرہے آخر کیوں؟
ہمارے ہاں 99%کاروباری لوگوں کا رویہ اپنے کسٹمرز کے ساتھ انتہائی روکھا اور کسی حد تک متکبرانہ ہو تا ہے کسی گاہک کو ویلکم یا تھینک یو کہنے کا نہ کوئی کا نسپٹ ہے نہ ہی Awareness، اس کا دیرپا نقصان یہ ہو تا ہے کہ اگر دادا نے ایک کاروبار سٹارٹ کیا ہے تو پوتا بھی اسی کاروبار کو اسی تھوڑے منافع کے ساتھ اسی طرز پر چلا رہا ہے وقت کے ساتھ منافع میں شاید کوئی کمی بیشی ہو لیکن کاروبار میں ترقی نام کی کوئی چیز نہیں ۔

اس لیے آپ کا رویہ آپ کے کاروبار کی سمت طے کرنے والا Compassہے اسے احتیاط سے استعمال کریں۔ ایک بات یہاں ذہن نشین کر لیں کہ دنیا میں ابھی تک ایسی کوئی بک پبلش نہیں ہوئی نا ہی ایسا کوئی لیکچر ریکارڈ پر ہے جو آپ کو زیرو سے اٹھا کر دنوں میں کڑوڑ پتی بنا دے ۔ دنیا کی ہر بک ہر آئیڈیا ہر ریسرچ صرف آپ کو راستہ بتاتی ہے جس پر چلنا اور مزید کھوج کرنا آپ پر منحصر ہے ۔

سو دن میں لاکھوں کمائیں، شاباس تم کر وگے، سو کامیاب لوگوں کی ایک سو عادتیں، آج ہی کاروبار کریں، اور لاکھوں ایسی کتابیں اور لیکچرز صرف اور صرف آپ کو بہت تھوڑا سا گائیڈ کر سکتے ہیں کیونکہ ہر لکھنے والا اپنے پوائنٹ آف ویو سے لکھتا ہے ، self helpیا بزنس کی تقریبا سبھی کتابیں یورپ امریکہ سے امپورٹ ہوتی ہیں جنہیں ٹرانسلیٹ کر کے سیل پر لگا دیا جاتا ہے ۔

ہمارے جانے مانے Motivational Speakersبھی شاید ایک پرسنٹ اپنی قابلیت سے اور ننانوے فیصد انہی فارنر رائٹرز کی کتابوں اور لیکچرز سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ کتابیں لکھنے والے ایک خاص کلچر کے لوگ ہیں جہاں Opportunitiesکا کوئی فقدان نہیں، جہاں کی روایات میں کوئی موچی، نائی، ترکھان، مسلی نہیں اور کام کرنے والا عزت دار ہے کمی کمین نہیں۔ ہمارے اور اس معاشرے میں شاید ہی کوئی چیز مشترک ہو ہماری احساس محرومی کا یہ عالم ہے کہ آج تک شکسپیر کا ہیملٹ اور آسکر وائلڈ کا Happy Prince ہمارے کورس کا حصہ ہیں اور یہی کچھ human Developmentکے ساتھ ہو رہا ہے ایک اوسط سے بھی کم درجے کا آدمی کامیابی کے فارمولوں کا گرو بن جاتا ہے کیونکہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اس کو ویری فائی کانے والا کوئی نہیں اور کورس کی کتابوں کہ رٹا لگانے کے علاوہ تو شاید ہی کوئی بک خریدنے پر ایک ہزار روپے خرچ کرے ۔

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :