” یہاں ظلم کے سوا رکھا کیا ہے “

بدھ 11 ستمبر 2019

Ahmed Khan

احمد خان

رحیم یار خان میں پو لیس کے ہا تھوں صلا ح الدین زندگی کی بازی ہا رگیا ، لا ہور میں عامر مسیح کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ایسا تو دشمن ملک بھی اپنے دشمن ملک کے قیدی کے ساتھ نہیں کر تا ، پاک پتن میں ایک بزرگ شہری کی جس طر ح سے پو لیس اہل کار نے عز ت افزائی کی پو ری قوم نے دیکھا ، وہا ڑی میں بزرگ خاتون کے ساتھ پو لیس نے جو کیا اس سے بھی احباب آگاہ ہو چکے ، آئی جی کے پاس دادسی کی امید میں آنے والی خاتون کے ساتھ پو لیس اہل کا رکی ’ ’ پو لیس گر دی “سب نے دیکھی ، اس معاملے کو ایک طرف چھو ڑے دیتے ہیں کہ جو پولیس اہل کاروں کے ستم کا شکار ہو ئے ان سے کو ن سا جر م سرزد ہو ا ، اصل سوال یہ ہے ، کیا پو لیس کو انہیں مارنے کا حق حاصل تھا ، کیا صلا ح الدین کا جرم اتنا سنگین تھا کہ اسے مارنے کے سوا کو ئی چا را نہ تھا ، کیا آئی جی آفس آنے والی بزرگ خاتون کو ئی خطر ناک دہشت گر دتھی ، ، پو لیس کے ہاتھوں پے در پے تشدد کے واقعات کے بعد پھر سے سیاسی شعبدہ با زیوں کا بازار گر م تر ہے ، خدا لگتی مگر یہ ہے اگر ماضی میں پو لیس کے اس قسم کے ” حرکات “ پر حکام بالا باز پر س کر نے کی زحمت کر تے ، بے گنا ہوں کے خون میں ملو ث پولیس اہل کاروں اور افسران کے خلاف صائب کا رروئی کی جاتی ، آج نہ صلاح الدین پولیس کے ہاتھوں جا ن کی بازی ہا رتا ، نہ پو لیس آج عوامی تنقید کا نشانہ بنتی ، ماضی میں مگر ہوتا کیا رہا ، دور جا نے کی زحمت قطعاً نہ کیجئے ، بس ذرا ما ضی قریب کے اوراق پلٹ لیجئے ، سانحہ ما ڈل ٹا ؤن کو بھلا کو ن بھول سکتا ہے ، سانحہ ماڈل ٹا ؤن میں اپنے ہی معصوم شہر یوں پر اپنی ہی پو لیس نے کس سفاکا نہ انداز میں گو لیاں برسائیں تھیں ، حاملہ خواتین اس سانحہ میں پو لیس اہل کاروں کے ہا تھوں جہاں فانی سے رخصت ہو ئیں ، ہوا مگر کیا ، اس وقت بھی بہت شور مچا ، مظا ہر ے ہو ئے ، عوامی سطح پر غم و غصہ کیا اظہار کیا گیا ، مگر ارباب اقتدار و اختیار کے کانو ں پر جو ں تک نہ رینگی ، اس وقت کے حکمران سانحہ ما ڈل ٹا ؤن میں ملوث پولیس اہل کا روں اور ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کر نے کے بجا ئے ان کو بچا نے کے لیے سر گر م رہے ، اب اس الم ناک سانحہ کو سالوں ہو نے والے ہیں مگر کسی بھی پولیس اہل کار کے خلاف کو ئی قانونی کا رروائی دیکھنے سننے کو نہیں ملی ، سچ کیا ہے اگر سانحہ ماڈل ٹا ؤن میں ملو ث پو لیس اہل کا روں کو سزا کا تلخ مزہ چکھا دیا جاتا ، شاید پو لیس کے ہاتھو ں یو ں سر بازار ظلم و ستم کے واقعات میں کچھ تو کمی آجا تی ، چلیے ایک لمحہ کے لیے مان لیتے ہیں کہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے حکمران کامل غلط تھے ،عہد ما ضی کو چھوڑیے اور حال میں آئیے ، تبدیلی کے دعوے دار حکمرانوں کے عہد میں ساہیوال واقعہ رونما ہو ا ، ساہیوال واقعہ میں ملو ث پو لیس اہل کاروں کے خلاف قانونی کا رروائی کر نے کے بڑے وعدے اور دعوے کیے گئے مگرقانون کی پاسداری اور قانون کی تابعداری کی تلقین کر نے والے حکمران آج تک سانحہ ساہیوال کے ذمہ داروں کو سزا نہیں دلوا سکے ، در اصل محکمہ پو لیس میں جزا ور سزا ” ڈھیلا نظام “ ہی پولیس میں تمام تر حشر ساما نیوں کی بنیاد ہے یہی وجہ ہے کہ پو لیس میں مو جود ” قلیل فیصد“ بڑی دیدہ دلیری سے قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں اور جو من چا ہے وہ کر گزر تے ہیں اور یوں پوری پو لیس فورس کی بد نامی کا باعث بنتے ہیں ، حالیہ دنو ں میں پو لیس کے ہا تھوں انسانیت سوز واقعات نے ایک پھر عوام میں عدم تحفظ اور خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی ہے ، بہت سو ں کے لبو ں پر یہ سوال مچل رہا ہے ، کیا یہ ہماری اپنی پو لیس ہے ، کیا اس پو لیس کا کام معصوم شہر یوں کی دادرسی کر نا ہے ، کیا یہ پو لیس ظالمو ں سے لا چاروں کے لیے ” پنا ہ گاہ “ ہے ، طرفہ تماشا ملا حظہ کیجئے ، ہماری بہادر پو لیس جو کمزروں ، معصوموں ، بے گنا ہو ں اور لا چاروں پر قہر بن کر ٹوٹتی ہے اسی پو لیس کا واسطہ جب وڈیروں اور طاقت وروں سے پڑ تا ہے وہاں ہماری بہادر پو لیس اپنی دلیری ، اپنا غصہ اپنا کر وفر اپنی فر عونیت یکسر بھو ل جا تی ہے ، کو ئی ایسا واقعہ بتلا ئیے جب پو لیس اہل کاروں نے کسی وزیر شذیر کی چھترول کی ہو ، کسی سیاسی وڈیرے کے ساتھ عامر مسیح والا سلو ک کیا ہو ، کسی طاقت ور کے ساتھ صلا ح الدین کی طر ح پیش آئی ہو ،طاقت ور نظام پر قر بان جا ئیے کہ ہماری پو لیس غریبوں کے لیے قہر اور طاقت وروں کے لیے ” چھڑی “ بننے کا فریضہ ادا کر تی ہے ۔

(جاری ہے)

لگی کئی دہا ئیوں سے پو لیس کو ” عوام دوست “ بنا نے کے نعرے قوم سن رہی ہے ، سابق خادم اعلی تو اپنی انتخابی مہم میں ہمیشہ سے تھا نہ کلچر کو عوام دوست بنا نے کے نام پر عوام سے ووٹ مانگتے رہے ہیں مگر اپنے عہد اقتدار میں ہزار وعدوں کے باوجود عملا ً وہ کچھ نہ کر سکے ، جناب وزیر اعظم عمران خان بھی پو لیس بالخصوص پنجاب پو لیس کو عوام دوست بنا نے کے لیے اصلا حات کے وعدے کر تے رہے ہیں ان کے اقتدار کو بھی ایک سال سے زائد ہو چکا مگر نئے پاکستان میں بھی پو لیس کی”کل “ وہی پرانی والی ہے ۔ بہت ہو گیا خدارا اب تو عملا ً پو لیس کے نظام میں اوپر سے نیچے تک عوامی امنگوں کے مطابق درستی کی سبیل کیجئے آخر کب تلک معصوم شہر ی پو لیس کے ہاتھوں ظلم سہتے رہیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :