”بنتے بگڑتے دوست بنے گا کیا“

منگل 1 دسمبر 2020

Ahmed Khan

احمد خان

ایک بات طے ہے کہ ملکو ں کی سطح پر دوستی کی ” پخ “ بس نام کی ہوا کر تی ہے مفادات کا کھیل دراصل ممالک کو ایک صف میں کھڑا کر تا ہے اسی مفاداتی تعلق کو یار دوست ” دوست ممالک “ کا نام دیتے ہیں ، گزرے چندماہ میں پاکستان کے تعلقات جن ممالک سے مثالی گردانے جاتے تھے ان ممالک کے ساتھ اب تعلقات کی وہ نو عیت نہیں رہی یو ں بھی کہہ سکتے ہیں پاکستان کے ” قریب تر “ گر دانے جانے والے ممالک کے ساتھ تعلق خاطر کچھ سرد مہر ی کے روپ میں ڈھل چکے ، سعودی عرب اور پاکستان کے باہمی تعلق کو احباب ” کوہ ہما لیہ “ سے تعبیرکر تے رہے ہیں حالیہ عرصے میں مگر ” بو جوہ “ دونوں ممالک کے تعلقات میں وہ ” خو بو “ نظر نہیں آرہی ، آنے والے دنوں میں پاک سعودی تعلقات کس نہج پرجا تے ہیں آنے والے دن اس کا فیصلہ کر یں گے ، جہاں تلک دوسرے خلیجی ممالک سے تعلق کی بات ہے ان کے ساتھ بھی بس واجبی ساکہہ لیجیے ، حالیہ سالوں میں البتہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پہلے سے ” دوچند “ ہو چکے سی پیک کی شروعات کے بعد پاکستان اور چین کے مفادات چونکہ ایک دوسرے کے ساتھ ” گڈ مڈ “ ہو چکے سو خارجہ سطح پر پاکستان کو چین کی پشت پنا ہی حاصل ہے ، حالیہ سالوں میں ترکی کے ساتھ بھی تعلقات میں گر م جو شی کے منا ظر دیکھے جاسکتے ہیں ، دونوں ممالک میں حکومتی اور عوامی سطح پر ” تعلق خاص “ کی بو باآسانی محسوس کی جاسکتی ہے گو یا مفادات کے ” ہیر پھیر “ سے پاکستان کے دوستوں کی فہر ست میں بھی تغیر آرہا ہے ، کل تلک پاک سعودی تعلقات اور دوستی کی گونج چہار سو تھی اب پاک ترکی اور پاک چین تعلقات کا شہرہ ہے ، ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کس نہج پر ہیں ، پاک ایران تعلقات ” گرمی سردی “ کا شکار رہے ہیں آنے والے وقت میں پاک ایران تعلقات کس رخ پر چلیں گے کچھ کہنا قبل ازوقت ہے ، افغان اور اہل افغان کے بارے میں کیا کہا جا ئے جانے نہ جا نے گل ہی نہ جا نے باغ تو سارا جانے ہے، خارجی سطح پر بنتے بگڑتے تعلقات پاکستان کو خارجہ سطح پر کس طر ح سے متاثر کریں گے اور داخلی طور پر پاکستان کو کن مسائل اور مشکلات سے نبرد آزما ہو نا پڑ ے گا ، تیل کی پیدوار سے مالا مال سعودی عرب کے ساتھ جب تک مفاد کا چلن عام تھا اس وقت تک ” معاشی بگاڑ “ کے وقت سعودی عرب کی جانب سے امداد مل جا یا کرتی تھی اور پاکستان کی ڈوبتی تیرتی معیشت پا ؤ ں پا ؤں چلنے لگ جاتی ، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں” کمی پیشی “ کے بعد شاید مستقبل میں سعودی عرب پاکستان کے ” کام “ اس طر ح سے نہ آسکے جس طرح سے ماضی کے ادوار میں سعودی عرب مشکل وقت میں اپنا کندھا پیش کر دیا کرتا تھا جہاں تک ترکی کی بات ہے اگر چہ ترکی کی معیشت اردگان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سنبھلی ہے مگر ترکی معاشی طور پر اس قابل نہیں کہ ہنگام کی سی حالت میں ترکی سعودی عرب طرز کی مالی معاونت پاکستان کی کر سکے ، چین کے ساتھ اگر چہ اس وقت ” لنگو ٹیا یار “ والے تعلق پاکستان کے بیاں کیے جاتے ہیں ، پاکستان کو مگر معیشت کے باب میں اکثر و پیشتر جس طر ح کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے چین بر وقت شاید ہی پاکستان کی مدد کر سکے ، حالات کیا غمازی کر رہے ہیں ،خارجہ سطح پر ” تبدل “سے پاکستان کے لیے مسائل کے کئی در کھل گئے ہیں ، پاکستان اگر اپنی مو جودہ ” خارجہ پالیسی “ پر من و عن قائم رہتا ہے ، اس صورت پاکستان کو کسی نئے ” مالی سہارے “ کی ضرورت پڑے گی ، پاکستان کے ساتھ قریب تر تعلق رکھنے والے ممالک پر نظر ڈالیں ان میں سے کو ئی ملک ایسا نہیں جو مشکل وقت میں پاکستان کی جھولی میں سکے ڈال سکے ، پاکستان چین ترکی ملا ئشیا بلا ک سے عالمی سطح پر ایک دھانسو قسم کا تا ثر پڑے گا ممکن ہے اس نئے بلا ک سے خارجہ سطح پر پاکستان کی اہمیت اور افادیت دوچند ہو جا ئے ، سوال مگر یہ ہے کہ کمزور معیشت کا حامل پاکستان کس طر ح سے معیشت کے ہنگام سے نکلے ، ایسا کو ن سا ملک ہے جو سخت وقت میں پاکستان کو معاشی طور پر اپنا کندھا پیش کر ے ، مو جو دہ منظر نامے میں عالمی حالات کے نشیب و فراز کو دیکھتے ہو ئے کو ئی ایسا ملک نظر نہیں آرہا جو پاکستان کو سعودی عرب کی طر ح اپنا کند ھا پیش کر ے ، اب کیا ہوگا ، پاکستان کو ” معاشی سہارے “ کی عادت تر ک کر نی ہو گی ، پاکستان کے حکمرانوں کو اپنی معیشت کو اپنے پا ؤں پر کھڑا کر نا ہو گا ، وطن عزیز کے حکمران سابقہ ادوار میں ” ادھر ادھر “ سے مالی تعاون کے لیے سر گر داں رہتے ، نئے عالمی منظر نامے میں اب پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کو اپنے زور بازو پر تکیہ کر نا ہوگا ، معیشت کی اٹھا ن کے لیے پاکستان کے حکمران طبقے کو خلوص دل سے اقدامات کر نے ہو ں گے ، پاکستان کے عوام کو اپنی معیشت کو پٹڑ ی پر چڑ ھا نے کے لیے دن رات ایک کر نا ہو گا ، تیل کی مفت فراہمی اور ڈالروں کی بر سات کے دن لد ھ گئے اب خون پسینہ بہا نا ہو گا تب ہاتھ میں روپے آئیں گے ، باطن کا تو اللہ پاک جا نے ظاہر کے حالات مگر اسی کی چغلی کھا رہے ہیں ، خارجی اور داخلی سطح پر سر اٹھا کر چلنے کی خو اگر اپنا نی ہے سب سے پہلے اپنی معیشت کو درست سمت پڑ ڈالنے کی سبیل کر نا ہو گی ، اقوام عالم کے انداز بدل گئے اقوام عالم کے مفاد بدل گئے اب دوسروں پر تکیہ کر نے کی عادت ترک کر نا ہو گی اب بھی اگر خِواب غفلت سے جاگنا نصیب نہیں پھر راوی جو لکھ رہا ہے وہ کچھ اچھا نہیں لکھ رہا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :