”تبدیلی مگر نظر آئے“

منگل 20 اپریل 2021

Ahmed Khan

احمد خان

تخت نشیں کو کامل اختیار ہوا کرتا ہے کہ اقتدار کی بساط پر خالصتاً اپنی مرضی سے مہر ے کسکسا ئے اقتدار کی بازی جیتنے کے لیے مر ضی کی چال چلے بغیر چارہ نہیں ، کپتان اپنے اقتدار کے پو نے تین تین سالوں میں اپنی منشا سے چالیں چل رہے ہیں اپنی مر ضی سے مہر ے ادھر سے ادھر سر کا رہے ہیں، با ر بار وزراء کو بدلنے اوروزراء کے قلم دان ادھر سے ادھر کر نے کے باوجود مگر کپتان عوام کی منشا کے عین مطابق نتائج سامنے نہیں آرہے ، جس دھج سے کپتان اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو ئے تھے تمام تر کو ششوں کے کپتان عوام کی امنگوں پر پورا اتر نے میں ہنوز ناکام ہیں ، جنہیں کپتان چور ڈاکو راہزن اور نہ جانے کیا کیا القابات سے نواز تے رہے کپتان کی حکومت سے زیادہ ان کے حکمرانی کے ادوار عوام کے مفاد کے لحاظ سے قدرے بہتر رہے ، پی پی پی حکومت نے اگر کئی شعبوں میں عوام کی بد نامی اپنے دامن میں سمیٹی تو کئی حوالوں سے پی پی پی حکومت نے عوام کے دلو ں پر اپنے حکومتی اقدامات سے راج بھی کیا متوالوں کا معاملہ بھی کچھ اسی طر ح کا رہا مرکز میں نوازشریف امو ر مملکت میں اس طر ح سے دل چسپی نہیں لیا کرتے تھے جس طرح سے عوام الناس کی آسانی کے لیے انہیں محنت شاقہ سے کا م لینا چا ہیے تھا پنجاب میں مگر ان کے برادر صغیر نے جس طرح سے مسلم لیگ ن کو سنبھالا دیا تھا ، اب مسلم لیگ ن کے سخت گیر قسم کے مخالفین بھی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے ” گول مول “ طرز کے اقدامات کو شہباز شریف حکومت سے موازنہ کرتے پا ئے جاتے ہیں ، سوال یہ نہیں کہ کپتان بار بار وزراء کو تبدیل کیوں کر رہے ہیں ، سوال یہ ہے کہ اگر ایک وزیر ایک شعبہ میں کا رکردگی نہیں دکھا رہا پھر اس سے وہ وزارت لے کر دوسری وزارت کیو ں دی جاتی ہے ، کیا ایک شعبے میں نا اہلی کا مظاہر ہ کر نے والا وزیر باتدبیر دوسرے شعبے میں جاکر کے اہلیت کا تمغہ اپنے سینے پر سجا لے گا ؟ کپتان کے عہد میں وزراء سے محکمے لینے اور دینے کا قصہ عام سی بات ٹھہرا ، ابتدا میں جب ایک دو بار کپتان نے وزراء کو ادھر سے ادھر کیا عوام کو اچھی بھلی امید ہو چلی تھی کپتان عوام کے لیے کچھ کر گزر نا چا ہتے ہیں اور وزراء کے تغیر میں اچھا ئی کا عمل کارفر ما ہے جیسے ہی کپتان نے اپنے اس ” عمل “ کو کھیل بنا یا عوام اب سوال کر نے لگے ہیں کہ وزراء اگر نااہل ہیں وزراء اگر وزارت کے منصب کے تقاضوں پر پورا اتر نے سے قاصر ہیں آخر وہ کو ن سی مجبوری ہے کہ کپتان وزارت کے منصب پر پورا نہ اتر نے والوں کو گھر نہیں بھیجتا ، کا بینہ میں بار بار کے ” تلا طم “کے بارے میں باخبر حلقوں میں دو طر ح کی خبریں گر دش کر رہی ہیں کچھ نقاد وں کا قول زریں ہے کہ وزراء کا تغیر و تبدل دراصل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا بنا بنا یا ڈرامہ ہے جیسے ہی عوام میں حکومت کے خلاف غبار کی سطح آسماں کو چھو نے لگتی ہے کپتان اور اس کے سیانے احباب وزرا ء کی تبدیلی والا ” کھیل “ کھیل جا تے ہیں ساتھ ہی عوام کو خوش خبری بھی سنا دی جا تی ہے کہ پہلے جو ہوچکا سو ہو چکا اب دیکھ لیجیے حکومت عوام کے لیے اپنا ایسا پسینہ بہا ئے گی کہ عوام عش عش کر اٹھیں گے یوں عوام کو ٹر ک کی بتی کے پیچھے لگا کر کپتان اپنے اقتدار کا لطف خراب ہو نے سے بچا لیتا ہے باخبر حلقوں کے دوسرے گروہ کا فر ما نا ہے کہ کچھ وزراء کا” وزن “ زیادہ ہے ان وزرا ء کا اثر و رسوخ اس حد تک ہے کپتان چاہنے کے باوجود بھی انہیں کا بینہ سے فارغ نہیں کر سکتے ، ان بھا ر بھر کم وزراء کی مخالفت بلکہ فراغت کے کپتان متحمل نہیں ہو سکتے سو کپتان ان وزراء کو چلا نے کے لیے بار بار وزرا ء کے قلم دان تبدیل کر تے نظر آتے ہیں ، چلیں مر کز کی حد تک باخبر حلقوں کی منطق ما ن لیتے ہیں مگر کچھ ایسا ہی حال پنجاب میں ہے پنجاب میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت بھی عوام کو کچھ خاص دینے میں ہنوز نامراد ہے پنجاب کے وزیر اعلی کو کپتان کا دست شفقت حاصل ہے ہر لحظہ کپتان کی رہنمائی پنجاب کے وزیر اعلی کو میسر ہے” ہما “ کی اتنی ڈھیر ساری کر م فر مائی کے باوجود مگر پنجاب حکو مت سے امن و امان اور لا قانونیت کے سانپوں کا سر نہیں کچلا جارہا ، جرائم کی شرح دیکھ لیجیے ، ادارہ جاتی نظم و نسق کی جانچ کر لیجیے ، بڑے بڑ ے تر قیاتی منصوبے تو رہے ایک طر ف پنجاب حکومت کے ہاتھ سے انتظامی سطح کے معاملات نکل چکے ، کے پی کے کے حالات سے وہاں کے باسی کتنے خوش ہیں اس سے بھی سیاست کے رموز پر نگا ہ رکھنے والے خوب آگاہ ہے ، بلو چستان کے حکمرانوں کی عوامی خدمت کے باب میں کا ر ناموں سے بھی سبھی واقف ہیں ، عملا ً کیا ہو رہا ہے ، تبدیلی صرف بیانوں کی حد نظر آتی ہے تبدیلی صرف اپنے منشور سے فرار کی حد تک نظر آتی ہے اور بس ، عوام کی زندگیوں میں تحریک انصاف نے جو تبدیلی لا نی تھی وہ اب منو ں مٹی تلے دفن ہو چکی ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :