” یہ تو ہونا ہی تھا “

جمعہ 30 جولائی 2021

Ahmed Khan

احمد خان

آزاد کشمیر میں ہو نے والے حالیہ انتخابات کو سیاسی پر دھا ن مختلف زاویوں سے جا نچ رہے ہیں سیاست اور رائے عامہ سے جڑ ے حلقوں کی جانب سے اپنے اپنے طور پر رائے زنی کا سلسلہ چل سو چل ہے بعض حلقے آزاد کشمیر کی فتح کو تحریک انصاف کی مقبولیت کی ترازو میں تول رہے ہیں اس سوچ کے سر خیلوں کے مطابق اسلام آباد حکومت کی پالیسیوں کو پذ یرائی بخشتے ہو ئے اہل کشمیر نے تحریک انصاف کے پلڑ ے میں اپنا ووٹ ڈالا ، چلیں صد فی صد نہ سہی کسی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف کو اہل کشمیر کا ووٹ دینے میں یہ عنصر کہیں نہ کہیں شامل رہا لیکن صد فی صد اس نکتے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا ، تحریک انصا ف کی فتح اور مسلم لیگ کی شکست میں مسلم لیگ ن سے جڑ ے احباب کا ہاتھ بھی کار فر ما رہا ،ایک عام تاثر یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں پہلے سے قائم مسلم لیگ ن حکومت عوامی توقعات پوری کر نے سے قاصر رہی ، آزاد کشمیر میں قائم ن لیگی حکومت کی عوامی توقعات کے معاملے میں ” ماٹھا پن “ بھی گویا ناکامی کی وجہ بنی ، بعض سیاسی دادا گیروں کے خیال زریں کے مطابق شہباز شریف جیسے زیرک اور معاملہ فہم پارٹی رہنما کی انتخابی مہم سے ” دوری “ نے دراصل تحریک انصاف کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا ، محترمہ مر یم بی بی نے جس طرح سے آزاد کشمیر میں جارحانہ انداز اختیار کیا بی بی کا یہ جارحانہ انداز اہل کشمیر کو شاید نہیں بھا یا ، سیاست پر عقابی نظر رکھنے والوں کے مطابق اگر شہباز شریف کے ہاتھ میں آزاد کشمیر کی انتخابی کی باگیں دی جاتیں ،شہباز شریف صائب طور پر انتخابی مہم کی رہبری کر کے مسلم لیگ ن کو پھر سے اقتدار کی راہ پر ڈال دیتے مگر ” بوجوہ “ آزاد کشمیر میں دانستہ شہباز شریف کو انتخابی مہم سے دور کیاگیا جس کے حوصلہ افزا نتائج نہ نکل سکے ، مسلم لیگ ن کی سیاسی شکست میں آزاد کشمیر میں موجود مقامی رہنما ؤں کا کردار بھی کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت اگر راست انداز سے اپنے پتے کھلیتی شاید مسلم لیگ ن کی عدد ی اعتبار سے یہ حال نہ ہوتا ، لیکن ن لیگ کی مقامی قیادت سیاسی گر کے داؤ پیچ آزما نے میں کا مل طور پر نامراد نظر آئی اس کے بر عکس ن لیگ کے بعض رہنما ؤں نے ” جو ش خطابت “ میں اپنی جماعت کے لیے مشکالات پیدا کیں ، اوپر کے سطور میں بیاں کر دہ حقائق اپنی جگہ درست آزاد کشمیر میں عام روایت مگر بر سوں سے یہی چلی آرہی ہے کہ شہر اقتدار میں جس کی حاکمیت ہوا کر تی ہے آزاد کشمیر کا تخت بھی اسی کے نام ہوا کرتا ہے اب کے بار چونکہ اسلام آباد کے تخت پر تحریک انصاف براجمان ہے سو آزاد کشمیر والوں نے بھی اقتدار کا ہما تحریک انصاف کے سر پر بٹھا دیا ، جہاں تک تحریک انصاف کی مقبولیت کو جانچنے کا تعلق ہے تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت کا تول بول کا پہلا مر حلہ سر پر کھڑ ے بلد یاتی انتخابات کا ہے ، بلد یاتی انتخابات میں کامل طور پر نہ سہی مگر کسی حد تک تحریک انصاف کی مقبولیت سے پردہ ضرور سرک جا ئے گا ، تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت کی جانچ کا پیمانہ دراصل 23ء کے عام انتخابات ہیں دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں انصافین کے ساتھ عوامی برتاؤ کیا ہوتا ہے اگر چہ آزاد کشمیر کی حالیہ جیت پر تحریک انصاف سے جڑے کر م فر ما خوشی سے پھو لے نہیں سما رہے ہیں مکرر عرض مگر یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی جیت عوامی مقبولیت کی پائیدار کسوٹی نہیں ، تحریک انصاف مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی عوامی مقبولیت کس درجہ پر ہے اس کی اصل کسوٹی اگلے عام انتخابات ہیں ، المیہ کیا ہے عام انتخابات کے حوالے سے ” ٹاکرے “ کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں بڑی حد تک بے نیاز ہیں ، تحریک انصاف کو اقتدار کے نشے سے چنداں فرصت نہیں ، مسلم لیگ ن تحریک انصاف کی کن پٹی پر محض بندوق رکھ کر مزاحمت کی سیاست کر نے میں محو ہے ، کچھ ایسا ہی حال کم وپیش پی پی پی کے مہر بانوں کا ہے ، عام انتخابات میں قلیل عرصہ رہ گیا، ہو نا تو یہ چا ہیے تھا کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ” قرینے “ سے 23 ء میں ہو نے والے معر کے کو سر کر نے کے لیے جامع اطوار سے اپنی اپنی توانیاں صرف کرنا شروع کرتیں ایسا مگر کچھ بھی نظر نہیں آرہا ، پی پی پی بلو چستان پنجاب اور کے پی کے سے کو سوں دور اپنی سیاست کر رہی ہے ، مسلم لیگ ن پنجاب کی حد تک ” ہٹوبچو“ کا کھیل کھیل رہی ہے تحریک انصاف کو اسلام آباد اور لا ہور سے فرصت میسر نہیں بظاہر اغلب امکاں یہی کہ اگلے عام انتخابات تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی کر سیوں کو ” گننے “ کی بنیاد پر انتخابات لڑیں گی جہاں تک نئی صف بند ی اور پارٹی منشور کی بات ہے غالباً تینوں سیاسی جماعتیں اسے ” سیاسی فتور “ سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :