”گھاٹے کا سودا“

منگل 3 اگست 2021

Ahmed Khan

احمد خان

مشرف کے ہاتھوں فراغت کے بعد جہاں میاں صاحبا ن کی نجی زندگی نشیب و فراز کا شکار ہو چلی تھی وہی مسلم لیگ ن کا شیرازہ بھی اریب قریب بکھر سا گیا تھا ، میاں صاحبان کے وطن سے ود ا ع ہو تے ہی مسلم لیگ ن سے تعلق خاطر رکھنے والوں نے ق لیگ کی آغوش میں پنا ہ لے لی چنید ہ سے جو احباب مسلم لیگ ن سے جڑے رہے ان میں سے کئی مشرف کی سختیاں جھیلتے رہے اور کچھ نے سیاسی گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی ، میاں صاحبان جن حالات کے تناظر میں گئے اور پھر ان کے رفقاء نے جس طرح سے ن لیگ سے بے وفا ئی کی تاریخ رقم عمو می تاثر یہ تھا کہ اب مسلم لیگ ن کا بطور سیاسی جماعت دم خم ماضی بن چکا جیسے ہی مگر میاں صاحبان واپس آئے اڑن چھو ہو نے والے پھر سے میاں صاحبان کے اردگرد جمع ہو گئے دوسری جانب میاں صاحبان نے مسلم لیگ ن کو سنبھا لا دینے میں محنت شاقہ سے کام لیا اور یوں نیم مر دہ سیاسی جماعت پھر سے پاکستانی سیاست میں سرگرم ہو گئی ، اب معاملہ قدرے بلکہ یکسر مختلف ہے ، مشرف کے عہد میں ن لیگ کی قیادت میں باہمی اتحاد کا توانا رشتہ استوار تھا اب ن لیگ کی اعلی قیادت میں در پر دہ تفرقہ اپنی جگہ بنا چکا اگر چہ مشرف عہد والی سخت کو شی کا سامنا مسلم لیگ کو نہیں لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت میں اندر خانے پائی جانے والی” کشاکش“ کا معاملہ سر اٹھا چکا ہے ، محترمہ مر یم بی بی اپنے خاص موقف کے ساتھ مسلم لیگ ن کو چلا نے کے لیے سرگرم ہیں دوسری جانب زیرک اور معاملہ فہم شہباز شریف اپنے سیاسی اطوار سے مسلم لیگ ن کو ملکی سیاست میں چلا نے کے آرزو مند ہیں ، سیاسی موقف اور سوچ کے لحاظ سے میاں شہباز شریف اور ان کے نور نظر حمزہ شہباز ” مفاہمت “ موقف کے حامی ہیں جبکہ محترمہ مریم بی بی اور ان کے والد گرامی مارو یا مر جا ؤ طرز کی سیاست کر نے کے خواہاں ہیں ، چاہے نجی زندگی میں اختلاف نہ سہی سیاست میں مگر محترمہ مر یم بی بی اور چھو ٹے میاں صاحب کے سیاسی افکار میں واضح تقسیم ضرور نظر آتی ہے ،مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت کے ” منقسم “ ہونے کی وجہ سے اس سیاسی جماعت کی دوسری درجہ کی قیادت بھی واضح طور پر دو ” خانوں “ میں بٹ چکی ، محترمہ مر یم بی بی کے ہم نوا نہ صرف حکومت بلکہ مقتدر حلقوں کو رگید نے میں بھی پیش پیش ہیں اس کے بر عکس چھو ٹے میاں صاحب اور ان کے ہم خیال رہنما حکومت وقت کی حد تک سرگرم نظر آتے ہیں لیکن مقتدر حلقوں سے سینگ اڑانے سے گریز پا ہیں ، دل چسپ امر یہ ہے کہ ن لیگ کی قیادت کی سطح پر افراط و تفریط کی وجہ سے ن لیگ کا عام کارکن بھی گومگو کی سی کیفیت کا شکار ہے ، ن لیگ کی اعلی قیادت میں سوچ کی تقسیم نے آزاد کشمیر میں بھی گل کھلا ئے اور سیال کوٹ کے ضمنی انتخابات میں بھی ن لیگ کو شکست کا مزہ چکھنا پڑا ، وقت کے آمر نے پی پی پی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو اس کے بس میں تھا مگر پی پی پی پورے دم خم سے تابندہ رہی عین اسی طرح مشرف نے ن لیگ کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا مگر نامراد رہے ، ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ نامی گرامی سیاسی جماعتیں رزق خاک کیوں بن جاتی ہیں ، جب کسی سیاسی جماعت کی قیادت اپنی جماعت کے لیے ” خطرہ “ بن جا ئے تب وہ سیاسی جماعت زمیں بوس ہو جا یا کر تی ہے ، پاکستان کی سیاست میں کتنی ہی سیاسی جماعتیں جو بن پر رہیں عہد حاضر میں مگر اب کو ئی ان کا نام لیوا تک نہیں ، دراصل کسی بھی سیاسی جماعت کی اعلی قیادت کی ” میں “اس جماعت کو لے ڈوبتی ہے ، پی پی پی کی نظیر سیاسی شد بد رکھنے والوں کے سامنے ہے محترمہ بے نظیر کی حیاتی تک پی پی پی چاروں صوبوں کی زنجیر تھی جیسے ہی پی پی پی کی اعلی قیادت نے پارٹی امور میں ” زگ زیگ “ طرز کی پالیسیوں کا چلن عام کیا آج وہی جماعت عملاً ایک صوبے تک محدود ہوچکی ، ن لیگ کی اعلی قیادت جس طرح سے اپنی اپنی سوچ کا کھیل رچا رہی ہے ، سیا سی قیادت کے اس ” عجب طرز عمل“ کے غضب کے نتائج نکلیں گے ، اعلی قیادت کے اس طرز عمل سے کسی اور کا نہیں خالصتاً مسلم لیگ ن کا زیاں ہے ، عام انتخابات قر یب تر آچکے کسی بھی سیاسی جماعت کے یک جا ہونے کا یہ وقت ہوا کر تا ہے اگر اس اہم سیاسی مو ڑ پر ن لیگ کی قیادت میں ” میں “ کا چلن یو نہی عام رہا پھر ن لیگ کے خیر خواہوں کو اپنے مستقبل کی فکر ابھی سے دامن گیر ہو نی چاہیے، بہر حال دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے خیر خواہ آنے والے ما ہ و سال میں کس طرح سے سیاست میں اپنا دم خم قائم کر تے ہیں، نفع کس کا مقدر بنتا ہے اور گھا ٹے کا سودا کس کا نصیب ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :