ایک پروقار تقریب میں کپتان نے بڑی تفصیل سے اپنی تین سالہ حکومت کے کا رہا ئے نما یاں گنوائے ، کپتان نے انصاف صحت کارڈ کو اپنی حکومت کی جانب سے عوام کے لیے ایک اعلی درجے کی سہولت سے تعبیر کیا ،حکومت کی عوام سے محصولات کی وصولی کی پالیسی پر بھی اچھی بھلی روشنی ڈالی ، کپتان کے قول کے مطابق لگے تین سالوں میں نیب ایف بی آر اور محکمہ انسداد بد عنوانی کے ذریعے ملکی خزانے میں اربوں روپے وصول کر کے جمع کروائے گئے ، قبضہ مافیا کے قبضے سے سرکار کی قیمتی زمینوں کی واگزاری کے بارے میں بہت کچھ بیاں کیا گیا کپتان کے مطابق ان کی حکومت کا ہی کمال ہے جس نے طاقت ور لو گوں سے سرکار کی زمین واگزار کروائی ، قانون کی حکمرانی کے باب میں کپتان کالب و لہجہ پرجوش تھا ان کے مطابق کل تک جو قانون سے بالا تھے آج ان میں سے کچھ جیلوں کی سلا خوں کے پیچھے ہیں اور بہت سے قانون کے تحت مقدمات کاسامنا کر رہے ہیں ، خارجہ پالیسی کے باب میں بھی کپتان نے جامع اطوار سے اپنے کار ہا ئے نما یاں کا ایک ایک کر کے تذ کرہ کیا بلا شبہ جس طرح سے افغانستان کی صورت حال نے ڈراما ئی پلٹا کھا یا اس کے بعد جس طر ح سے کپتان نے امریکہ سمیت عالمی سورماؤں کو ” پچھلے قدموں “ پر کھیلنے پر مجبور کیا حکومت کا یہ اقدام قابل تحسین ہے ، اغلب قیاس یہی ظاہر کیا جارہا ہے اگرکپتان کی جگہ کسی اور کے ہاتھ مملکت خداد اد پاکستان کا زمام اقتدار ہوتا شاید آج پھر پاکستان کو جان کے لا لے پڑ ے ہوتے آج خارجہ سطح پر شاید پھر پاکستان کا لہجہ معذرت خوانہ ہوتا شاید آج پھر پاکستان سے ” مزید کچھ اور “ کا مطالبہ کیا جاتا، کپتان نے مگر جس طرح سے عالمی سورماؤں کو پسپائی پر مجبور کیا بجاطور پر اسے حکومت کے بھلے فیصلوں میں شمار کیا جاسکتا ہے ، ملکی زرمبادلہ کا ذکر خوباں بھی حکومتی کر م فر ماؤں کے لبوں پر رقص کر تا رہا بجا طور پر حکومت کے متذکرہ اقدامات قابل داد ہیں ، خلق خدا کی زباں پر مگر اچھے بھلے گلے شکوے بھی رقصاں ہیں ، عوام مو جودہ حکو مت سے سب سے زیادہ گرانی بلکہ ہوش ربا گرانی کے حوالے سے شکوہ کناں ہیں سچ پو چھیے تو نوے فیصد عوام کو اس سے غرض نہیں کہ اسلام آباد کا تخت نشیں کو ن ہے کس جماعت سے ہے ، جمہوریت کا علم بردار ہے یاآمریت کا پیروکار ، عوام کی اکثریت کی بس ایک ہی تمنا ایک ہی دلی آرزو ہوا کرتی ہے کہ سانس اور جسم کے سلسلے کو رواں رکھنے والی اشیاء ضروریہ ان کی پہنچ میں ہوں ، روزگار کے دروازے ان کے لیے ہر دم کھلے ہوں ، کو ئی ” کان کٹا “ ان کی عزت و عصمت کو چھیڑ نے کی جرات نہ کر سکے ، جمہو ریت پسندوں کے لیے تو عام آدمی کو راضی رکھنا کچھ زیادہ ہی ضروری ہو تا ہے ، کیو ں ، دراصل اسی عام آدمی کے بل پر جمہوریت پسند اقتدار کے تخت تک کا سفر طے کرتے ہیں اسی عام آدمی کے نعرے جمہو ریت پسندوں کے لیے سانس کا کام کر تے ہیں ، عام آدمی کی تائید ہی دراصل جمہو ریت کے دعوے داروں کی کامرانی گردانی جاتی ہے ، عام آدمی مگر خاص طور پر گرانی کی بیماری کی وجہ سے تحریک انصاف حکومت کو نہ صرف بھلے لفظوں میں یاد نہیں کر رہا بلکہ حکومت وقت سے بے زار ی بھی عام آدمی کے چہرے پر واضح نظر آتی ہے ، کپتان کے حق میں کل تلک جو سر عام سینہ تھا نے پھرتے تھے لگے عام انتخابات میں جنہوں نے جنون کی حد تک کپتان اور کپتان کی جماعت کو کامران کر نے کے لیے خون دل جلا یا ، تحریک انصاف کو نہ صرف خود ووٹ دینے کے اعزاز سے نوازا بلکہ اپنے ملنے جلنے والوں اپنے دوست احباب کو بھی ” تبدیلی “ کے لیے رام کیا آج کپتان کے وہ بے لوث سیاسی سپاہی بھی گرانی کی حشر سامانیوں بنا پر حکومت سے ناخوش دکھا ئی دیتے ہیں ، جناب کپتان کے ارد گرد جن کا بسیرا ہے یہ اسی قبیلے سے ہیں جو حاکم طبقے کو ہاتھ میں رکھنے کے ہنر سے خوب آشنا ہیں ، سابق حکمرانوں کی طر ح کپتان کے ارد گرد جمع ہو نے والے بھی کپتان کو عوام کے نکتہ نظر سے نہ آگاہ کر تے ہیں اور نہ کسی کو آگاہ کر نے دیتے ہیں ، کپتان کی خدمت اقدس میں عرض ہے کہ آنے والے انتخابات میں تحریک انصاف کا مقابلہ مسلم لیگ ن اور پی پی پی سے نہیں بلکہ عام آدمی سے ہے اگر باقی ماندہ عرصہ اقتدار میں کپتان متوسط اور غریب طبقہ کی آسانی کے لیے تیر بہ ہد ف پالیسیوں کا چلن عام کر تے ہیں اس صورت سر پر کھڑے عام انتخابات میں کپتان اور تحریک انصاف کی ” جے “ کی امید باندھی جاسکتی ہے بصورت دیگر اگلے انتخابات میں جیت تو کوسوں دور کی بات ہے شاید تحریک انصاف کے امید وار عوام کا سامنا کر نے سے بھی کترائیں بہرطور کپتان باقی ماندہ اقتدار کے ایام میں کیا کرتے ہیں اس کا کا حال رب کریم اور پھر کپتان ہی بہتر طور پر جانتے ہیں ، دعا بس یہی ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں آسانی کا ساماں پیدا ہو جا ئے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔