” شومئی قسمت “

بدھ 20 اکتوبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

تاریخ کے اوارق میں شاید ہی کو ئی ایسی خوش بخت حکومت آئی ہو ،جو عوام کی چہتی ہو ،عوام کی ایک بڑی تعداد نے جس کے ساتھ عہد وفا کا پیماں کیا ہو ، سیاسی شعور سے لیس گردانے جانے والے حلقے کپتان کے ہم نوا تھے پڑ ھے لکھے طبقے نے بھی اپنی امیدوں کا محور تحریک انصاف کو بنا ئے رکھا ، اداروں کی سطح پر بھی کپتان اور تحریک انصاف کے لیے نر م گوشہ ہچکو لے کھا رہا تھا جب کپتان کو حکومت ملی لگے تین سالوں میں جس طرح سے بطور ادار فوج نے کپتان حکومت کا ہر قدم پر ساتھ دیا بلکہ بہت سے ایسے مواقع جہاں کپتان اور ان کے ” ماہرین “ سے بھول چوک ہوئی فوج نے ان کی اپنے ہاتھوں سے پیدا کر دہ مشکل کو آسانی میں تبدیل کیا، ہر سو ” ہرا ہرا “ ہو نے کے باوجود لیکن کپتان عوام کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے میں نامراد رہے ، گرانی بے روزگاری اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے فرسودہ نظام کو ختم کر نے کے باب میں کپتان کو ئی کاری گری دکھلا نے میں کامران نہ ہو سکے ، عوامی حلقے عام طور پر ن لیگ حکومت سے نالانی کا اظہار کرتے پا ئے جاتے کہ اقتدار کی سنگھا سن میں قدم مبار ک رکھنے کے بعد میاں صاحبان کو ” اونچا سنائی “ دینے لگتا ہے قوم کی جان کپتان مگر ماضی کے سبھی حکمرانوں کی نادانیوں کا ریکارڈ شاید توڑنے پر آماد ہ ہیں جس عام آدمی نے انہیں اقتدار کی غلام گردشوں میں پہنچا یا کپتان کے اقدامات اور پالیسیاں اسی عام آدمی کو ملیامیٹ کر رہی ہیں ، بجا کہ تیل مصنوعات کے نرخ کے قصے میں حکومت کے ہاتھ عالمی ساہوکاروں کی وجہ سے بندھے ہیں عالمی بازار میں تیل مصنوعات کے پر دھان جب من چاہے نر خ بڑھاتے ہیں بہ امر مجبوری تیل مصنوعات کے خریدار ممالک کو بھی تیل مصنوعات کے نرخوں کا بوجھ اپنے عوام پر چار و نا چار لادنا پڑ تا ہے ، سوال مگر یہ ہے کیا گرانی کے معاملے میں حکومت کو معصوم قرار دے کر مقدر کا لکھا گردان کر معاف کیا جاسکتا ہے ، ایسا ہر گز نہیں ، ما ن لیتے ہیں کہ تیل مصنوعات کے معاملے میں حکومت اغیار کی مر ہون منت ہے ، گندم تو لیکن گھر کی کھیتی ہے ذرا لگے تین سالوں میں آٹے کا بھا ؤ سونے جتنا کیوں ہو گیا ، لگے ماہ و سال میں کس سر عت سے آٹے کے نرخ یک دم نیچے سے اوپر گئے ہیں خود ملا حظہ کر لیجیے تمام تر دعوؤں کے باجود مگر حکومت کچھ نہ کر سکی ،گند م سے ملتا جلتا قصہ چینی کا بھی ہے چینی بھی تو گھر کی پیداوار ہے تین سالوں میں چینی کے کاروبار سے وابستہ اپنے وطن کے بڑے پیٹ والوں نے کس ” گول مول “ طر یقے سے چینی کے نام پر دام کھر ے کیے سب عیاں ہے ، بجلی اور گیس کے بم عام آدمی کے سر پر کتنی بار پھو ڑے گئے شاید اب عام آدمی کو ان معاشی کی بموں کی تعداد بھی یاد نہ ہو ں ، لاقانونیت اور عدل کے باب میں بہتری کے باب میں کپتان اور کپتان کے دائیں بائیں جم غفیر نے کیا کیا وعدے عوام الناس سے کر رکھے تھے ، لا قانو نیت کا حال قوم کے سامنے ہے آج بھی لا قانونیت کا بد مست ہاتھی غریب کو پا ؤں تلے روند رہا ہے جرائم کی شرح میں کمی کے بجا ئے ہو ش ربا بڑ ھتوڑی ہو ئی ہے ، عدل کے باب کا دروازہ دیکھ لیجیے ، سستے اور تیز تر انصاف کی فراہمی میں کو ن رکاوٹ ہے ظاہر ہے کو ئی بھی نہیں ، لیکن کپتان حکومت عام آدمی کے لیے تیز تر انصاف کے قصے میں ککھ نہ کرسکی ، معیشت کو بہتر کر نے کے حسیں وعدے لا کھوں بار کیے گئے بہت سے ایسے اقدامات اور پالیسیاں اگر حکومت سر بازار کر تی بڑی آسانی سے عام آدمی کی معیشت میں بہتری لا ئی جاسکتی تھی ، حکومت کے جامع معاشی اقدامات سے فی کس آمدنی میں اضافہ ممکن ہو سکتا تھا ، یہاں پر پھر حکومت کے معاشی ماہرین کے نام پر ” حرف “ آتا ہے ، کپتان سے سے لے کر کپتان حکومت کے ہر رکن نے زبانی کلا می دعوؤں پر توجہ مر کوز کیے رکھی ہے عملا ً پالیسی سازی کے باب میں حکومت کے ” رند “ دما غ سوزی کی زحمت تک نہیں کر تے وزراء اکرام اور مشیران عظام سمیت گو یا کوئی اپنی ذمہ داری کا بوجھ ااٹھا نے میں کسی طور سنجیدہ نہیں ، سچ کیا ہے ، کپتان حکومت کی انتظامی امور پر گرفت صفر بٹا صفر ہے ، اشیاء ضروریہ کی نرخ میں حکومت ایک روپے اضافہ کر تی ہے دکان دار اپنی طرف سے اس شے کے نرخ میں دس روپے اضافہ عوام کے سر توپ دیتے ہیں ، در اصل قانون کی عمل داری میں حکومت کی جانب سے رواں سقم نے عام آدمی کو سخت کو شی کے سمندر میں دھکیل دیا ہے ۔

(جاری ہے)


حضور!ملک کا انصرام اس طرح سے نہیں چلا یا جاتا محض زبانی پر مغز تقاریر سے عوام کے دل نہیں لبھا ئے جاسکتے ، محض صبر کی تلقین سے عام آدمی کا پیٹ نہیں بھرا جاسکتا ، ، خدارا حزب اختلاف کی ” کان شمالی “ کے بجا ئے خلق خدا کی زندگیوں میں در آنے والے مسائل کے حل کے لیے اپنے اقتدار اور اختیار کا ڈنڈا استعمال میں لا ئیں اگر ذرا سی نیک نامی بھی اپنے نام کر نی ہے کثیر وقت لد چکا باقی ماندہ قلیل وقت میں کچھ تو کر لیجیے زیادہ نہیں تو کم از کم سفید پو ش طبقے کی آسانی کے لیے تو جاتے جا تے کچھ کر لیجیے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :