” پاس کریں یا برداشت کریں “

پیر 25 اکتوبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

عمومی طور پر ابلاغ سے جڑے احباب وقت کے حاکموں کے کان اور آنکھیں ہوا کرتے ہیں کیا اخبار نویس کیا کالم نویس کیا بر قی ذرائع ابلاغ سے جڑ ے احباب سبھی حکمرانوں کے بھلے کا ر ناموں کو نہ صرف عوام تک پہنچا تے ہیں بلکہ عوامی مفاد سے لگ کھا نے والے حکومتی اقدامات کی توصیف بھی کر تے ہیں لیکن جہاں کہیں حکومت وقت کے قدرداں عوامی مفاد کو زک پہنچا تے ہیں عوام کے جذبات مجروح کر تے ہیں جہاں عوام کے حقوق پر حاکم ڈاکہ ڈالتے ہیں ابلاغ کے وسیلوں سے جڑے صحافی حکومت کے عوام مخالف اقدامات کو نہ صرف اجاگر کر تے ہیں بلکہ شائستہ طور طریقوں سے وقت کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور اقدامات کو ہد ف تنقید بھی بناتے ہیں دو دہا ئیوں میں وقت کے پلوں تلے بہت سا پانی بہہ چکا ، مشرف دور میں جب مخالفین کو چن چن کر ” زک “ پہنچا نے کا ہر سو چر چا تھا مشرف کے دور آمریت میں بھی مشرف کے حکومتی اقدامات پر کھلے بندوں تنقید کا سلسلہ رکا نہیں ، کچھ ایسا ہی رشتہ ابلاغ کے دوستوں کا پی پی پی اور مسلم لیگ ن سے بھی بر قرار رہا ، پی پی پی حکومت میں بھی تعریف اور تنقید کا سلسلہ جاری رہا جہاں کہیں کم علمی سے اہل قلم سے بھول چوک ہو تی پی پی پی کے اکابرین ہنستے مسکراتے تصیح کر وادیتے ، جہاں کہیں پی پی پی حکومت کی خامی ہوتی وہاں ابلاغ کے دوستوں کی تنقید کو خندہ پیشانی سے سر آنکھوں پر لیا جاتا ، مسلم لیگ ن کے دور میں بھی ایسا سلسلہ چل سو چل رہا مسلم لیگ ن کے ایم این اے ایم پی اے پی پی پی جیسی ” خندہ پیشانی “ کا وصف توخیر نہیں رکھتے تھے لیکن انہوں نے بھی اظہار رائے کی راہ میں کم از کم رکاوٹ ڈالنے کی سعی نہیں کی ، حکومتی ایم این اے ایم پی اے وزیر مشیر گلے شکوے کر تے اور دوست احباب ہنسی میں اڑا لیتے ، یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ابلاغ کے وسیلوں سے جڑ ے اکثریت احباب کا کسی بھی سیاسی جماعت سے ذاتی وابستگی کا” رشتہ “ نہیں ہوا کرتا ، اپنے فرائض سے آگاہ ابلاغی کا رکنا ن جو دیکھتے ہیں اسی کو عوام تک پہنچا تے ہیں ، جہاں کہیں حکومت کے امور میں ” جھول “ دیکھتے ہیں اس کی نشان دہی کر تے ہیں ، پی پی پی مسلم لیگ ن تحریک انصاف جماعت اسلامی غرض ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت اور اس سے وابستہ اکابرین کو ابلاغ کی دنیا میں ” سبھی ہمارے ہیں “ کے ناطے سے دیکھا سنا اور پر کھا جاتا ہے ، شخصی آزادیوں اور اظہار رائے کے باب میں پی پی پی کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ نے لگے چند سالوں میں خوب نعرہ مستانہ بلند کیا ،جناب خان اپنے انہی ” فر مودات “ کی بنا پر اقتدار میں آنے سے قبل تک ذرا ئع ابلاغ کے ” محبو ب “ بنے رہے ، اقتدار میں آنے کے بعد لیکن خان صاحب کے مصاحیبن حقیقی اور شائستہ اختلاف کو برداشت کر نے کی قوت کھو چکے ، عام طور پر اخبار نویس کالم نویس سبھی دوست احباب اپنی خبریں تجزیے اور کالم سما جی رابطوں کے ذرا ئع پر بھی اپنے پڑ ھنے والوں کے لیے ڈال دیتے ہیں ، حکومت کے وظیفہ خوار مگر سماجی رابطوں پر حکومت پر ہو نے والی جائز تنقید برداشت کر نے کے روادار نہیں لگے کچھ عرصہ سے حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کر نے والے ایسے خبر نو یسوں کی فیس بک آئی ڈی کو بند کر نے کی رسم عام ہو چکی ہے ، ہو نا تو یہ چا ہیے تھا کہ آزادی اظہار پر قد غن لگا نے کے بجا ئے حکومت وقت اور حکومت کے اعلی دماغ اپنا قبلہ درست کر نے کی سعی کر تے ، جن حکومتی پالیسیوں پر ابلاغ کے وسیلے تعمیری تنقید کر تے عوام کے مفاد سے جڑے ان ” مضر “ حکومتی امور کو دل جمعی سے راست کر نے کی تد بیر اپنا ئی جاتی ، طر فہ تماشا مگر یہ بر پا ہے کہ حکومت اپنی اصلا ح کے بجا ئے اظہار رائے کے ” لبوں “ کو سی لینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ، ملین ڈالر ز کا سوال لیکن یہ ہے کیا رائے عامہ استوارکر نے والے حلقوں سے اس حکومتی حسن سلوک سے حکومت اور حکومتی احباب کی نیک نامی کا رستہ کھل سکتا ہے ، قطعاً ایسا نہیں ، اقتدار ہاتھ کی میل ہے آج اقتدار ہے کل کلاں اقتدار کے ہما نے حاکموں کے سر سے اڑ جا نا ہے ، تخت پر تشریف فر ما آقاؤں نے کل پھر خاص سے عام ہو نا ہے اگر اسی طر ح کے حربوں اور حیلوں پر حکومت کے شاہ دماغ عمل پیرا رہے تو دیوار پر جو لکھا ہے اسے ٹھنڈے دل سے پڑ ھ لیں صرف تعریف اور تو صیف سننے کے عادی ہمیشہ تنہا رہ جا یا کرتے ہیں ، آزادی اظہار پر تالے لگا نے سے بھلا کب حکمرانوں کے اقتدار کو دوام حاصل ہوا ، وقت کے حکمرانوں کے ایسے سستے اقدامات سے عوامی چوکوں چو باروں میں اختلاف کے شعلے مزید سوا ہوں گے ، صائب مشورہ یہ ہے کہ عوام سے جو وعدہ کر کے اقتدار میں آئے ہیں ان وعدوں کی پاس داری کی خو اپنا ئیں ، عوام کے لیے آسانیوں کا ساماں پیدا کریں ، دشنام کی حوصلہ شکنی ضرور بہ ضرور کیجیے لیکن تہذیب کے دائرے میں ہو نے والی تنقید کو کھلے دل سے قبول کر نے کی روش بھی اختیار کیجیے اسی میں حکمرانوں کی بھلا ئی اور کامرانی کا راز مضمر ہوا کرتا ہے ، اگر ایسا نہیں کر سکتے پھر پاس کر یں یا برداشت کر یں ، رائے عامہ کو جو ڑنے اور ہم وار کر نے والے حلقوں کی فیس بک آئی ڈی بند کر نے سے آپ کے ہاتھ کچھ آنے والا نہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :