ووٹ کی عزت اورآ رمی ایکٹ ترمیمی بل

منگل 7 جنوری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی متفقہ طور پر منظوری کے بعد پاکستان کے وزیراعظم کو اب یہ اختیار حاصل ہوگیا ہے کہ وہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کرسکتا ہے ۔ آئینی اور قانونی طور پر ملک کے وزیرِ اعظم کو مذکورہ اہم ترین اختیار پہلے حاصل نہیں تھا،اسی باعث نواز شریف نے اپنے ادوارِ حکومت میں فوجی سربراہان کی مدتِ ملازمت میں توسیع دینے کو گریز کیا ۔

مسلم لیگ ن کے مرکزی راہنماء خواجہ آصف نے اسی باعث آج قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل کہا کہ پارٹی قیادت کی واضع ہدایات کے بعد ہی آرمی ترمیمی ایکٹ کی حمایت کے فیصلے پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔
میں ذاتی طور پر اپنے ایک حالیہ کالم میں بھی عرض چکا ہوں کہ یہ قانون سازی بہت پہلے ہو جانی چاہئے تھی کیونکہ یہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لیئے نہایت اہم اور بے حد ضروری ہو گیا تھا ۔

(جاری ہے)


اب دوسری جانب رخ کرتے ہیں کہ نواز شریف اور پیپلز پارٹی نے پہلے اس آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی مخالفت کیوں کی اور آخر میں آ کر اچانک حمایت کیوں کر دی؟ اس سوال کا جواب ابھی دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے آنا باقی ہے،لیکن اس وقت اتنا عرض کر دینا ہی کافی ہے کہ جو سہولت کار ماضی میں پارلیمنٹ پر لعنتیں بھیجواتے رہے، سیاستدانوں کو چور اور ڈاکو کہلواتے رہے اور جو حکومتی مہرے آج قومی اتفاق رائے پیدا ہونے کی ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں ، آج ان کے مالکان کی نوکریوں کے فیصلے اسی لعنتی پارلیمنٹ میں انہی چور اور ڈاکو سیاستدانوں نے کیئے ہیں ۔

ویسے بھی ہمارے ہاں سینٹ الیکشن پر64 ووٹ لینے والا ہار رجاتاہے 35ووٹ والاجیت جاتاہے ایسے میں کسی آرمی ایکٹ ترمیمی بل پاس کرناکونسامشکل یا انہونا کام ہے جو ممکن نہ ہو سکے ۔
خان صاحب کی ٹینشن اب شروع ہوئی ہے اور اصل کھیل بھی شروع ہوا ہے جس کا اندازہ غالباً کپتان صاحب کو بھی بخوبیء ہو گیا ہے، کیونکہ خود انہی کے وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنی پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں بتایا ہے کہ موجودہ آرمی چیف کی عمر 59 سال ہے،توسیع کی تین سال مدت پوری ہونے پر ان کی عمر 62 سال ہوگی، وزیر اعظم چاہیں گے تو انہیں مذید دو سال توسیع دے سکیں گویا معاملہ تین سال نہیں پانچ سال تک بھی جا سکتا ہے ۔


نواز شریف اور آصف زرداری کو لیٹنے یا بوٹ پالش کرنے کے طعنے دینے والے یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ وہ دن زیادہ دور نہیں جب خود پی ٹی آئی کے عہدیدار کپتان کو بھگو بھگو کے چھتر مار رہے ہوں گے کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے بدلے میں خود انہیں اور ان کی اصل ٹیم کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کر دیا گیا ہے ۔ یہ منظر نامہ آئیندہ دو ماہ کے اندر اندر آنے والا ہے ۔

نوا ز شریف اور آصف زرداری نے ملک میں پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لیئے جان لیوا جنگ لڑی ہے،آصف زرداری کا بطور صدرِ پاکستان اپنے تمامتر اختیارات پالیمنٹ کو دے دینا اور نواز شریف کو سیولین بالا دستی کی بات کرنے پر تین مرتبہ اقتدار سے بے دخل کرنا اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے ۔
آج اگر قومی اسمبلی کے اسپیکر کے سامنے جا کر دو ارکان اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر نے ڈنکے کی چوٹ پہ آرمی ایکٹ کی مخالفت کی بلکہ ایوان سے واک آؤٹ کرنے سے قبل اسپیکر ڈائس کے سامنے جا کر آرمی ترمیمی بل کی کاپیاں بھی پھاڑ کر پھینکیں اورمذکورہ ترامیم کے خلاف جے یو آئی ف، جماعت اسلامی اور فاٹا کے ارکان نے احتجا ً قومی اسمبلی کے ایوان سے واک آؤٹ کیا تو ان میں اتنی ہمّت اور جرات نواز شریف کی سول سپریمیسی کے لیئے شروع کی گئی جدوجہد اور ووٹ کو عزت دو کے بیانئے کے باعث ہی پیدا ہوئی ۔


غداری کے متوقع فتوے کے باوجود اتنی ہمّت اور جرات اس سے پہلے کسی اور پارلیمنٹ کے نمائندے نے کیوں نہ کی ۔ نوازشریف پر تنقید تو خوب ہو رہی ہے لیکن اس حقیقت کو کون جھٹلائے گا کہ نوازشریف اور اسکے خاندان نے ان گنت قربانیاں دے کر آپکے سامنے اس ملک کے اصل مسعلے اور حقیقت کو عوام کے سامنے رکھا اور بہترسالہ زیر زمین اس حکومتی نظام بے نقاب کیا جس باعث اس قوم کے بنیادی حقوق تک سلب ہوتے رہے اور یوں وہ، ووٹ کی عزت کروانے کا بیانیہ سامنے لایا ۔


پیپلز پارٹی پر بھی بے جا تنقید کے ڈونگرے برسانے سے پہلے یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اگر اس ملک میں جمہوریت کے لیئے کسی نے قربانیاں دی ہیں تو وہ بھٹو خاندان ہی ہے ۔ جب ہم سب بلکہ دنیا یہ حقیقت جانتی ہے کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ کہاں ہے تو پھر آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ ہاتھویوں کے ساتھ جنگ کر کے خود کشی کرنا بہتر ہے یا عقل کا استعمال کرتے ہوئے معاملات کو اپنی منشاء کے مطابق لائے جائے ۔


آ رمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے سارے عمل میں یہ امر بھی آشکارہ ہو گیا کہ قومی میڈیا میں قومی سلامتی کے نام پر اس قدر لائیو کوریج اس سے پہلے کسی بل کی منظوری کے حوالے سے نہیں دیکھی گئی، کاش کہ ایسا بندوبست کبھی پاکستان کی شہ رگ اور روح، کشمیر کے معاملے پر بھی پارلیمنٹ میں ہو جاتا ۔
آخر میں اتنا عرض کروں گا کہ نواز شریف کو حقیر جانتے ہوئے اور اسے سیاست سے مائنس کرنے والے طاقتوروں نے بل آخر کھلے عام تسلیم کر لیا ہے کہ اس ملک کا مستقبل جمہوریت اور پارلیمنٹ سے ہی وابسطہ ہے جس کابڑا اور واضع ثبوت آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی پالیمنٹ سے منظور ہے ۔ ووٹ کو عزت دینا اور کسے کہتے ہیں؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :