لمحہِ فکریہ

بدھ 4 مارچ 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

اس ملک کی اس سے بڑی اور کیا بدقسمتی ہو گی کہ ایٹمی طاقت کے حامل ملک کا وزیرِ اعظم اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے کسی لوکل سطح کی این جی او کے چیئرمین کا کردار ادا کر رہا ہے لیکن اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے کوئی یہ بتانے والا بھی کوئی نہیں کہ عوام کو بھینسیں،کٹّے اور مرغیاں پالنے کی ترغیب دینا وزیرِا عظم کے منصب کے ہرگز شایانِ شان نہیں۔

کوئی اس سلیکٹڈ وزیرِا عظم کو بتائے کہ وہ ملک کے کروڑوں بے روز گار نوجوانوں کے لئے کارخانے لگانے کے مواقع پیدا کرے کیونکہ ایک کارخانہ بھی اس کے کھولے گئے لنگرخانوں سے بہت بہتر ہے۔ 
صاف طور پر محسوس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر اپنائے گئے اس کے اس طرزِ عمل سے قوم اور بلخصوص نوجوان نسل میں مایوسی پھیلائی جا رہی ہے جس سے طے شدہ ”بیرونی ایجنڈے“ کے مطابق ملک کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل رہی ہے۔

(جاری ہے)

اس ضمن میں قوم پہلے ہی اپنی کھلی آنکھوں سے یہ افسوسناک تماشہ دیکھ چکی ہے۔ ملک کا وقار کم کرنے کی مذموم کوششوں کا آغاز وزیرِا عظم ہاوس کی بھینسوں اور گاڑیوں کی نیلامی کے عمل سے شروع ہوا، سابق وزیرِا عظم نواز شریف کے بغض میں قومی اور حساس پراپرٹی گورنر ہاوس کی دیواریں گرائی گئیں اور ایوانِ وزیرِا عظم کھول کر”صحافی“ وجاہت سعید خان کے ذریعے توہین آمیز عمل کا اظہار کروایا گیا،وزیرِا عظم ہاوس کے غسل خانوں کے باتھ ٹب میں بیٹھ کر تصاویر جاری کر کے نہ جانے کس کی خدمت گزاری کی گئی۔

 ملک ملک جا کر پاکستانی سیاستدانوں کی عزتیں اچھالی گئیں پہلے انہیں چور اور ڈاکو قرار دیا گیا پھر انہی ممالک سے ہاتھ پھیلا کر قرضوں کی بھیک مانگی گئی،غیر ملکی مہمانوں کی ڈرائیوری کی گئی،عوام اور تعلیم یافتہ مگر بے روزگار نوجوانوں کی سوچ کو محدود کرنے کی کوششیں کی گئیں انہیں،کٹے، انڈے،مرغیاں اور بھینسیں پالنے کی ترغیب دی گئی، دھوم دھام سے لنگر خانے، غسل خانے، پناہ گاہیں اور مسافر خانے کھولے گئے جن کا افتتاح بھی اس ایٹمی ملک کے وزیرِا عظم نے بنفسِ نفیس اپنے ہاتھوں سے کیا۔

بجائے اس کے کہ ملک کا وزیرِا عظم کسی بڑے تعمیراتی منصوبے،کارخانے یا بجلی گھر کا افتتاح کرتا۔ 
مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروانے کے لیئے قوم کو جمعہ کے دن دھوپ میں کھڑا ہونے کو کہا گیا، جس کا دنیا بھر میں مذاق اڑایا گیا۔ اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ تقریرالدین صاحب نے اپنی کھلے عام تقریروں میں کبھی جاپان اور جرمنی کی سرحدوں کو ملا دیا اور کبھی یہ بتایا کہ درخت رات کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔

کبھی بیرونِ ملک سے آنے والے کھلاڑیوں کو ریلو کٹے کہ کر مخاطب کیا گیا۔ اور تو اور اقوامِ متحدہ میں کھڑے ہو کر ملک کے دفاعی اداروں کے حوالے سے متنازعہ طرزِ عمل اختیار اور بیان بازی کر کے پوری قوم کو شرمندہ کیا۔ عرضیہ کہ حالیہ اٹھارہ ماہ میں حتی الامکان کوشش کی گئی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے کوئی ایسا عمل کیا جائے یا کوئی ایسی بات کہ دی جائے جس باعث وزیرِا عظم کے منصب اور وقار مین کمی یا توہین ہو سکے۔

اس ضمن میں اگر کسی مصروفیت کی وجہ سے جنابِ وزیرِ اعظم اپنا”کردار“ ادا نہ کر سکے تو ان کے قریبی وزراء ان کی جانب سے ملک کی خدمت گزاری کی ذمہ داری ادا کر تے رہے۔ نہ جانے اس ملک کا وزیرِا عظم اپنی کون سی محرومی اور احساسِ کمتری کا بدلہ اس ملک اور وزیرِا عظم کے منصب سے لیتا رہا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ 
احباب کو مذکورہ حقائق سے اتفاق ہو نہ ہو، پہلے بھی عرض کیا تھا، دوبارہ عرض کیئے دیتا ہوں کہ جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے ملک کے وقار کو کم کرنے کے لیئے یہ سارا گھناونا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے، جس کی حقیقت، ہمیشہ کی طرح وقت آنے پر آشکارا ہو گی اورمذکورہ کردار مکمل طور پر بے نقاب ہوں گے۔

لیکن افسوس اس کا رہے گا کہ اس ساری صورتِ حال پر ملک کا پرچم بلند رکھنے والے ایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے۔ موجودہ حکمرانوں کی ملک اور قوم کو رسوا کرنے کی یہی روش اور رویہ اقتدار میں آنے سے قبل بھی تھا۔
 ”اسپانسرڈ کنٹینر“ کے زیرِ اہتمام دھرنوں اور لاک ڈاون کے دور میں بھی یہی دیکھا گیا کہ صرف زبانی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی احتجاج کے نام پر ایسا طرزِ عمل اختیار کیا گیا کہ جس سے ریاست کی جگ ہنسائی ہوئی۔

کبھی بجلی اور گیس کے بل جلائے گئے،عوام کو سول نافرمانی کرنے پر اکسایا گیا۔ 
ایسا طرزِ عمل بھی خصوصی طور پر اختیار کیا گیا تا کہ ملک اور قوم کے وقار اور عزت میں کمی واقع ہو سکے۔ حساس سرکاری عمارات، میڈیا ہاوسز پر پتھراو کیا گیا، قومی املاک کو جلایا اور ان پر قبضہ کیا گیا، ملک کے صدر، وزیرِا عظم،اعلی سرکاری پولیس و سول افسران اور سیاستدانوں پر زاتی نوعیت کے حملے کیئے گئے، دھمکیاں دی گئیں،مذکورہ شخصیات کی اور ان کے خاندان کے افراد کی کردار کشی کی گئی اور”اسپانسرڈ کنٹینر“ سے ملک کے ان کاروباری افراد اور شرفاء کی عزتوں کو اچھالا گیا جن کے سیاسی نظریات کا تعلق ن لیگ یا دیگر ان جماعتوں سے تھا جو عمران خان اور پی ٹی آئی کے طرزِ سیاست پر کھلی تنقید کرتی تھیں۔

 اقتدار میں آ کر اس سابقہ روش کو چھوڑ دیا جاتا تو رات گئی بات گئی کہ کر برداشت کر لیا جاتا لیکن اب اگر اقتدار میں آ کر بھی ملک اور قوم کا مورال ڈاون کرنے کی کوششیں اورت طرزِ عمل جاری ہے تو ملک کے ذمہ دار،حساس اور مقتدر کہلانے والے اداروں اور محبِ وطن پاکستانیوں کے لیئے مذکورہ صورتِ حال لمحہِ فکریہ ہونی چاہیئے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :