ہینڈسم کپتان کا سیاسی ویژن

بدھ 8 اپریل 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

کاروباری برادری اور ملک میں چلتے ہوئے کارخانوں اور صنعتوں کا بیڑہ غرق کرنے کے بعد خیال آیا کہ’’ تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ان کے کالے دھن یا حرام کی دولت سے متعلق نہیں پوچھا جائے گا‘‘ بھاری بھرکم ٹیکس نافذ کر کے تاجروں اور چھوٹے دکانداروں کا جینا محال کرنے کے بعد خیال سوجا کہ ،اب تاجروں کو ٹیکس ریلیف دیا جائے ۔

بجلی اور سوئی گیس حد درجہ مہنگی کر کے غریب گھریلو صارفین پر عرصہِ حیات تنگ کرنے اور بے انتہاء مہنگائی کرنے کے باعث عام پبلک کو فاقے دینے کے بعد اب انہیں اپنے ٹائیگرز کے زریعے مفت راشن مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے ۔
 یہ ہے جناب، میرے ہنڈسم کپتان کے انقلابی ویژن کی ایک ہلکی سی جھلک ۔ لیکن اگر سیاسی ویژن کی تفصیل میں جانا مقصود جاننا ہو تو بائیس برس قبل پیچھے مڑ کر دیکھنا پڑے گا جب ایک بہت بڑے اور انقلابی قسم کے سیاسی ویژن کے ساتھ پاکستان تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی گئی ۔

(جاری ہے)

اس وقت شائد کسی کے وہم اور گمان میں بھی نہ ہوا ہو کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب اسی تحریکِ انصاف کی کپتان کی قیادت میں غیر ملکی ایجنڈے کے تحت ملک پر حکومت قائم ہو گی جس میں آدھی سے زیادہ کابینہ سابق آمر پرویز مشرف کے ساتھیوں اوردیگر سیاسی جماعتوں سے آئے افراد پر مشتمل ہو گی جن کا پی ٹی آئی سے دور دور کا واسطہ نہیں ہو گا ۔ اور جس طریقے سے اسے(پی ٹی آئی) کو اقتدار میں لایا جائے گا ویسا بھی کبھی پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا ہو گا۔


اگر محض دو سال قبل کا منظر نامہ ہی دیکھ لیں تو بھی کپتان کے سیاسی ویژن کا با آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جب اس نے اقتدار سنبھالتے ہی سادگی اختیار کرنے کے نام پر وزیرِا عظم ہاءوس کی ناکارہ گاڑیاں اور سات عدد بھینسیں نیلام کرنے کا حکم نامہ جاری کیا،اور اس کے بعد اپنا معاشی ویژن آشکارا کرتے ہوئے قوم کو مرغیاں ،بکریاں اور کٹّے پالنے کی ترغیب دی ۔

یہی نہیں بلکہ اپنے منشور میں بتائے گئے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکانات دینے کے برعکس قوم کے سامنے لنگر خانے اور عارضی پناہ گاہیں بنانے کا اہتمام کیا ۔ جبکہ بیرونی ممالک سرکاری دوروں میں اپنے ہی ملک کو کرپٹ قرار دینے کا منظر نامہ پیش کیا ۔
حکومتی پالیسیوں کی "کارکردگی" یہ ہے کہ محکموں یا وزارتوں کے وزیر ضرور موجود ہیں لیکن پالیسیاں اور ویژن نہیں ۔

خارجہ امور کا عالم یہ ہے کوئی بھی ملک بلکہ ہمسایہ ممالک بھی اب بات سننے کو تیار نہیں ،کشمیر ہاتھ سے نکل گیا اور افغان حکومت نے شَٹ اَپ کال دے رکھی ہے اور انہی دونوں ممالک کے ارد گرد ہماری خارجہ پالیسی گھومتی تھی جبکہ معاشی طور پر ملک کنگال ہو چکا ہے اور معیشت سے وابسطہ ذمہ داران کا کام صرف قرضے اور بھیک مانگنا رہ گیا ہے ۔
دفاع، صحت ،زراعت، تعلیم اور دیگر شعبہ جات کی حکومتی پالیسیوں کا زبانی جمع تفریق کے علاوہ کوئی وجود نہیں ، محض ہوا میں تیر چلائے جا رہے ہیں ۔

اس لیئے جوں جوں وقت گزر رہا ہے بائیس سالہ پرانی جہد و جہد پر مبنی پی ٹی آئی کا شاہکار سیاسی ویژن آشکارا ہوتا جا رہا ہے ۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے اہم ترین لیڈر بلکہ سیکنڈ ان کمانڈ المعروف چینی چور جہانگیر ترین کے حالیہ انکشافات معمولی نہیں بلکہ چونکا دینے والے ہیں ،جن کے ایک اہم اعتراف کا لبِّ لباب یہ ہے کہ’’ عمران خان کو حکومت بنا کر دی گئی تھی‘‘،گو کہ مذکورہ انکشاف زیادہ حیران کن نہیں. قوم پہلے ہی ایسے انکشافات اور حقائق سے بخوبی آگاہ تھی لیکن پی ٹی آئی کے بانی راہنماء اور فارن فنڈنگ کیس کے روحِ رواں جنابِ ایس کے بابر اب کے بعد آفیشلی طور پر جہانگیر ترین کے انکشافات نہایت اہمیت کے حامل ہو گئے ہیں ۔

گویا یہ تھا کپتان کا وہ "بائیس سالہ پرانا ویژن" جس کا ڈھنڈھورا پچھلے پانچ سال سے پیٹا گیا ۔
 جب ملک پر ایسے نام نہاد سیاسی ویژن کا حامل حکمران موجود ہو تو پھر جو کچھ اس وقت ملک میں ہو رہا ہے وہی ہوتا ہے ۔ آئے روز پالیسیاں بدلیں گی ۔ وزیر،مشیر بدلیں گے ،نعرے ، وعدے اور لا تعداد یوٹرن لیئے جائیں گے ۔
عمران خان نے اوائل سے ہی اس امر کا تاثر بھی دینا شروع کیا تھا کہ انہیں ملک کے اصل فیصلہ سازوں کی حمایت یا اسٹیبلشمنٹ کی مکمل آشیر باد حاصل ہے، جس باعث وہ اپنے منشور کا مکمل طور پر عملی جامعہ پہنانے میں کامیاب ہو سکیں گے ۔

ان کہ یہ خوش فہمی بھی تب آشکارا ہو گئی جب ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کے تمام تر اہم فیصلے بالا بالا ہونے لگے اور تا حال ہو رہے ہیں ،بلکہ اب تو حالات بتلا رہے ہیں کہ ملک میں تبدیلی برپا کرنے کے علمبردار عمران خان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہونے جا رہا ہے جو متوقع تھا یعنی جب جو غیر جمہوری بیساکھیوں پر کھڑی حکومتوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔
بقولِ شخصے جب ہاؤس آف کارڈز میں سے کوئی ایک پتہ بھی کھسکے تو پورا گھر بکھر جاتا ہے ۔ جب آپ کا سیاسی ویژن غیر سیاسی رویوں پر مشتمل ہو گا تو پھر ایسا نہیں تو کیسا ہو گا ؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :