لانگ مارچ ۔ فروری سے نہیں بلکہ جنوری سے‎

بدھ 16 دسمبر 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

عوام نے ملک میں حقیقی عوامی بالادستی اور اپنے ووٹ کی عزت کے لیئے اپنا وقت نکال کر اور اپنی جیب سے خرچہ کر کے پی ڈی ایم کے جلسے جلسوں کو کامیاب کیا جس سے کٹھ حکومتِ عمرانیہ پر دباءو بڑھا اور پھر اس نے غیر قانونی طور پر سینیٹ کا الیکشن مارچ کے بجائے اور فروری کے مہینے میں کروانے کا اعلان کیا ہے تا کہ اپنے اور عالمی مذموم مقاصد پورے کرتے ہوئے من مانی کے زریعے ناجائز ریاست اسرائیل کو تسلیم کیا جا سکے اور ملکی قوانین میں ترمیم کر کے صوبائی خودمختاری کا خاتمہ کیا جا سکے ۔


یہ گزارشات اس لیئے پیش کی ہیں کہ اطلاعات کے مطابق عالمی اشٹبلشمنٹ نے پی ڈی ایم راہنماءوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اعتماد میں لیا ہے، جبکہ یہ بات میں پہلے بھی اپنے ایک کالم میں عرض کر چکا ہوں ۔

(جاری ہے)

اور ایسا تبھی ممکن ہو گا یعنی اسرائیل کو تسلیم کرنا جب سینٹ میں حکومتِ عمرانیہ کی اکثریت ہو گی ۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں ایسے سیاسی حالات بنا دیئے جائیں کہ اپوزیشن یا پی ڈی ایم کے پاس بھی عوام کو ووچر لگانے کے لیئے جواز موجود ہو کہ چونکہ سینیٹ الیکشن وقت سے پہلے کروائے گئے اس لیئے پی ڈی ایم یا اپوزیشن بے بس ہو گئی اور دوسری جانب عالمی ایجنڈے کی باضابطہ تکمیل کرنے کے لیئے سینٹ میں بھی حکومت قانون سازی کے حوالے سے اکثریت مل سکے ۔

ایسے میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو دو چار دن گالیاں نکالی جائیں گی ۔ مولانا فضل الرحمان بھی دو چار ریلیاں نکالیں گے اور بس جیسے کشمیر کا سودا ہوا ویسے ہی اسرائیل تسلیم اور ڈرامہ ختم ۔
عالمی اشٹبلشمنٹ کی جانب سے پاکستانی اپوزیشن لیڈروں کو یہ بھی واضع طور پر بتا دیا گیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں مستقبل میں پی ڈی ایم میں شامل کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت کو شدید عالمی دباءو کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جسے وہ برداشت نہیں کر سکے گی بلکہ ان کی حکومت میں ملک پر کئی قسم کی پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں ۔

اس ضمن میں میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اسی لیئے اسرائیل کو تسلیم کیئے جانے کے معاملے میں حکومت،اشٹبلشمنٹ اور اپوزیشن پہلے ہی ایک صفحے پر ہیں ۔ اس بات کی دلیل یہ بھی ہے کہ ابھی تک ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کی قیادت کی جانب سے واضع پر کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے سخت موقف اور ردِ عمل دیکھنے میں نہیں آیا ۔

جبکہ مولانا فضل الرحمان گاہے بگاہے اسرائیل کے خلاف جو لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں اس میں حکومتِ عمرانیہ کی ان سے زاتی مخالفت زیادہ دکھائی دیتی ہے،اسرائیل کو تسلیم کرنے نہیں ۔
دوسری جانب بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث عوام کے صبر کا پیمانہ اب مکمل طور پر لبریز ہو چکا ہے ۔ عوام اب سڑکوں پر دھرنے دینے اور حکومتِ عمرانیہ کے خلاف لانگ مارچ کے لیئے تیار کھڑے ہیں ۔

اوپر بیان کی گئی گزارشات کی روشنی میں
اب اگر پی ڈی ایم کے لیڈروں نے عالمی ایجنڈے کی تکمیل میں کسی نام نہاد حکمت سے کام لیا اور حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے میں کوئی یکی دکھائی تا کہ سینیٹ الیکشن با آسانی ہو سکے تو پھر پبلک کا ہاتھ ہو گا اور اپوزیشن لیڈروں کا گریبان ہو گا یہی نہیں بلکہ ان کے گھروں کو گھیراءو کیا جائے گا کیونکہ پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کا باشعور ہوتا عام کارکن، اس وقت ملک میں نظام کی مکمل تبدیلی یعنی قومی سیاست میں اشٹبلشمنٹ اور غیر ملکی مداخلت کے خلاف پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جا پہنچا ہے ۔

اس لیئے اسے سیاسی حکمتِ عملی کے نام پر کسی بھی قسم کا دھوکہ دینا اب خود اپوزیشن لیڈروں کے لیئے تباہ کن ثابت ہو گا ۔
نواز شریف اگر ملک میں نظام کی تبدیلی اور آصف زرداری ، صوبائی خودمختاری کا پرچار کرتے ہیں تویہ تبھی ممکن ہو گا جب ملک کا اسٹیٹس کو تبدیل کیا جا سکے ۔ اپوزیشن کی مرکزی قیادت اگر عوام کے زور پر اپنے آنے والے یا ممکنہ اقتدار کے دنوں کو عالمی اشٹبلشمنٹ کی ناراضگی کے پیشِ نظر خطرے میں دیکھ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے اور صوبائی خودمختاری کے معاملے میں خاموش رہتی ہے تو پھر ملک میں کون سا اور کیسا نظام تبدیل ہو گا،اور اس کے ساتھ دن رات چلنے والی بھوکی ننگی پبلک کو دھوکہ دینے کا اس سے بڑا عمل اور کیا ہو گا
اپوزیشن اگر صیح معنوں میں ملک میں عوامی بالادستی اور آذاد خارجہ پالیسی پر مبنی کسی حکومت کے قیام کی خوہاں ہے تو عوام کو کسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے بجائے پی ڈی ایم کی قیادت کو کو فروری کے بجائے کل سے ہی کٹھ پتلی کے اسلام آباد کے بجائے اس کے مالکان کے’’ راولپنڈی‘‘ کی جانب لانگ مارچ کا آغاز کر دیا چاہیئے جہاں سامراجی طاقتوں کی ہدایت اور منشاء پر ملکِ خداداد کی اصل پالیسیاں بن رہی ہیں ،جن کے نتیجے میں آج ہم ایک ایٹمی طاقت کے ملک ہونے کے باوجود جہاں کھڑے ہیں وہ سب کے سامنے ہے اورنوبت اب یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب افغانستان ہ میں قرضے اور امداد دے رہا ہے ۔

حقیقت حال یہ ہے کہ اب تو عام آدمی بھی سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ہو چکا ہے کہ ہم ایٹمی ملک کے شہری ہیں بھی یا نہیں ۔
قصہ مختصر یہ کہ پی ڈی ایم کی قیادت کے اشارے پر بھوکی ننگی عوام نے حکومت کے خلاف جلسوں میں شرکت کر کے اپنی نفرت ظاہر تو کر دی اب اپوزیشن لیڈروں کا امتحان ہے کہ وہ کب حکومتِ عمرانیہ کے خلاف اپنے دعوے کے مطابق لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہیں ۔ موجودہ حالت کے پیشِ نظر پبلک ان کے ساتھ جنوری میں چلنے کو تیار کھڑی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :