پیپلز پارٹی کے پچھلے دروازوں سے رابطے‎

جمعرات 25 فروری 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

اطلاعات کے مطابق اگر پاکستان پیپلز پارٹی کے اشٹبلشمنٹ سے بیک ڈور رابطے ہیں تو اس میں برا کیا ہے؟،ن لیگ بھی ماضی میں ایسے رابطے کرتی رہی ہے ۔ پاکستان میں اقتدار کے حصول کے لیئے سیاسی جماعتوں کے اشٹبلشمنٹ سے رابطے کوئی انوکھی بات نہیں ۔ مولانا فضل الرحمان اور جماعتِ اسلامی والے بھی ایسے رابطے کرتے رہے ہیں ۔ کبھی بیک ڈور یا کبھی سامنے آ کر لیکن صرف چار دن کی چاندنی والے ان رابطوں کا ا نجام بھی آج ہمارے سامنے ہے ۔


مذکورہ رابطوں کے باوجود بھی سیاستدانوں کو کبھی چین سے نہیں بیٹھے دیا گیالیکن سبق پھر نہیں سیکھا گیا ۔ ہیوی مینڈیٹ لیکن اپنی نامکمل مدت کے ساتھ ملک کے تین مرتبہ وزیرِ اعظم رہنے والے نواز شریف اسی لیئے سول بالادستی میں سب سے بڑی رکاوٹ اشٹبلشمنٹ کو ناقابلِ اعتبار سمجھتے ہیں اور باقی جمہوریوں کو بھی یہ بات سمجھاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اب اگر ایک صوبے میں حکومت بچانے کے چکر میں کسی کو میاں صاحب کی نصیحت اثر نہیں کر رہی تو اس کا کوئی حل نہیں ۔


دوسری جانب چونکہ نیازی سرکار کی جانب سے اشٹبلشمنٹ پر بے دریغ لٹایا جانے والا مال ختم ہونے کو ہے اور اس کا انجام بھی قریب ہے، اس لیئے اسے نصب کرنے والے کسی نئے کٹھ پتلی کے منتظر ہیں تا کہ پھر نئے سرے سے پیدا گیری کا احتمام کیا جا سکے ۔ اب دیکھنا ہے کہ اشٹبلشمنٹ کا نیا شکار کون ہو گا ؟۔
سوال یہ ہے کہ اگر باعزت ہو کر عوامی بالادستی کے لیئے سیاست کرنا مقصود ہے تو اس کا راستہ کٹھن ،صبر آزما اور مشکل ہے جس سے آج پھر ن لیگ کی قیادت گزر رہی ہے ۔

اگر پچھلے دروازوں اور رابطوں والی سیاست بازی کرنی ہے جو نیازی دو سال سے کر رہا ہے تو سو بسملہ لیکن سینٹ میں سرپرائز اور اشٹبلشمنٹ کو اب نیوٹرل قرار دینے والے جمہوریئے کان کھڑے کر سن لیں ، پچھلے دروازوں سے آنے والوں کی سیاست کو اب عام آدمی بھی گیٹ نمبر چار اور کوٹھے کی سیاست کہنے لگا ہے ۔ آگے ’’حکمت‘‘ والوں کی مرضی کہ عوام کی جانب سے خود کو کیا کہلوانا پسند کرتے ہیں؟ ۔
کچھ ہی عرصہ قبل بلوچستان اسمبلی اور پھر پچھلے سینیٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی کا’’ جمہوری رویہ‘‘ بھلا کون بھولا ہے ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :