کووڈ19کی جب تاریخ لکھی جائے گی

اتوار 19 جولائی 2020

Aman Ullah

امان اللہ

یہ چین ہے 2019ء کے اواخر میں جیسے ہی یہاں کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تو لاک ڈاؤن لگادیا گیا اور سخت حفاظتی تدابیر اختیار کی گئیں ۔پھر دنیا نے دیکھا کہ انھوں نے بہت جلد ہی اس وباء پر قابو پالیا۔اورتب ابھی پاکستان میں یہ وائرس نہیں پہنچاتھالیکن یہود ونصار یٰ کی سازشوں والاوائرس تو یہاں تب سے براجمان ہے جب سے ہم نے علم وفن کے دروازے اپنے اوپر بند کرلیئے ہیں ۔

اور مزے کی بات ہے کہ چین جیسی ابھرتی ہوئی سپر پاور کو تواس بات کا ادارک نہ ہوسکالیکن پاکستانیوں نے دوستی کا حق اداکرتے ہوئے انکشاف کرنا مناسب سمجھا کہ یہ وائرس دراصل امریکہ کاپر حملہ ہے تاکہ اسکی معثیت کو تباہ کیا جاسکے اوردنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرسکے۔ ابھی یہ باتیں جاری ہی تھیں جہ کرونا وائرس بیڈمنٹن کی شٹل کی طرح اڑتااڑتا امریکہ کے کورٹ میں بھی جاگرا۔

(جاری ہے)

اور پھر کب کے خاموش بیٹھے بھارتیوں کی جان میں جان آئی۔ اب گاؤ ماتاکے پجاریوں نے ہاتھ باندھتے ہوئے کہا کہ دراصل یہ وائرس چین کی سازش ہے جس کا مقصد امریکہ کو تباہ کرنا صرف یہاں تک اکتفا ء نہ کیاگیا بلکہ ساتھ ہی جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے وہاں کی مسلم اقلیت پر چڑھ دوڑے دراصل بھارت جیسے پسماندہ معاشرے میں مذہبی تڑکے والی دال خوب پسند کی جاتی ہے ناء تو یہ تو ہونا تھا کہا گیا یہ وائرس مسلمان اپنی تھوک ، لعاب لمس سے پھیلا رہے ہیں لہذا ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے اور ان سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھا جائے ۔

اب پاکستان میں چونکہ بھارت کی طرح کوئی بھی مذہبی اقلیت اتنی کثیر تعداد میں نہیں ہے کہ انھیں خاص اہمیت دی جائے تو پھر بغض نکالنے کو مسلمانوں کے دوسرے فرقے ہی بچتے ہیں ۔ لہذا کہاگیا کہ دراصل ایرانی زائرین ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ وائرس پاکستان لیکر آئے ہیں ۔ اور دوسری طرف ہمارے تبلیغی بھائیوں نے اپنی بے وقوفیوں کی بدولت ساراگناہ اپنے سر لے لیا ۔

ابھی یہ سازشی تھیوری گھڑی جارہی تھی کہ سروں پر سچ مچ کرونا وائرس آن ٹپکا اور پھر وہ ہاہا کار مچی کہ الامان والحفیظ ۔۔۔۔۔
کسی نے کہا یہ ایک خالص وبائی مرض ہے تو کسی نے کہا کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو عورتوں کی فحاشی کی وجہ سے ہم مسلط ہواہے ، اورکسی کا کہنا تھا کہ بس ایک افواہ ہی ہے اور اس کا حقیقت میں اسکا کوئی وجود نہیں اور کچھ لوگ جو کہ غیر معمولی عقل کے حامل تھے لیکن یہ طے کرنا باقی تھا کہ یہ غیر معمولی پن، عقل کی زیادتی کی وجہ سے ، ان کا کہنا تھا کہ دراصل سب ہی جھوٹ ہے ۔

امریکہ اور یورپ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ، اور وہا ں کوئی موت نہیں ہوئی بلکہ زندگی اپنے معمول پر چل رہی ہے ۔ بس تیسری دنیا کو ڈرانے کے لیے میڈیا پر یہ ڈرامہ رچایا جارہاہے ۔ اور کوئی پوچھنے والا پوچھ رہاہے کہ جب آپ یا آپ کا کوئی عزیز رشتہ دار بھی اس کرونا کا شکار نہیں ہوا تو پھر کیسے اس کو سچ مان رہے ہیں اور پچھلے دنوں کی بات ہے کہ لاہور کے ایک ہسپتال میں کرونا سے متاثر ہ شخص کو رکھا گیا اور جناب چپکے سے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے پھر خوشاب انٹر چینج سے انہیں پکڑاگیا ۔

جب کہ کراچی میں ایک گھر میں کرونا وائرس کا انکشاف ہوا۔ امدادی ٹیم ان کے گھر پہنچی ، آگے سے کسی نے دروازہ کھولنا ہی مناسب نہ سمجھا ۔ اور اہل خانہ چونکہ صاحب حیثیت تھے ، اور ایک طاقتور ادارے سے تعلق رکھتے تھے لہذا میڈیا کو بھی خاص مصالحہ لگانے کو نہ مل سکا ۔ اور گجرات کی صورت حال یہ تھی کہ یہاں کے یورپ پلٹ شہری گھروں میں چھپ کر بیٹھے رہے اور باوجود حکومتی اصرار کے اپنے ٹیسٹ نہ کروائے۔

اور اب ایک نئی بے پرکی چھوڑی جارہی ہے کہ اگر کوئی مریض مرجاتاہے تو ڈاکٹر حضرات اسے کرونا کے کھاتے مین ڈال دیتے ہیں اور خواہمخواہ لوگوں کے جنازے
خراب کررہے ہیں میں تو کہتا ہوں امان اللہ ، ہو نہ ہو وہ ڈاکٹر بھی یہودی ہی ہونگے ، مگر افسوس ہم ان کے ختنوں سے اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ خیر !یہ قصہ تو عوام کا تھا لیکن یہاں کے حکمرانوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں پہلے کہا گیا کہ ہم لاک ڈاؤن نہیں لگائیں گے ، اور پھر لگا بھی دیا اورکہا گیا عوام سختی سے عمل کریں بعد میں اسے اٹھا دیا گیا کیوں کہ اسے تو اشرافیہ نے لگایا تھا ، اللہ جانے وہ کونسی اشرافیہ تھی جس کے ہاتھ میں حکومت ہے ، اگر خان صاحب اتنے ہی میں بس ہیں تو اٹھ کے گھر چلے جائیں ۔

دراصل قوموں کی زندگی میں ایسا وقت آتا رہتا ہے دحقیقت یہی ان کے امتحان کا وقت ہے کہ لوگ کیسے فراست کا مظاہرہ کرتے ہیں جب کہ ادھر تو یہ حال ہے کہ لوگ پہلے سے ہی تیار بیٹھے تھے کھڑاک کرنے کو ، لہذا کرونے کے شوشے کی دیر تھی کہ وفاق صوبوں کے درپے ہوگیا اور عوام خود ہی اپنے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔جب لوگ کرونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر نہیں اپنائیں گے تو یہی کہا جائے گا نا ، کہ وہ اپنے ہی دشمن گئے ہیں ۔

اس سارے پس منظر میں ایک بات طے ہے آنے والی نسلیں جب ہمیں تاریخ کے اوراق میں دیکھیں گی تو بجائے وہ 2019ء کی اس وباء سے عبرت پکڑیں ، الٹا ہم پر ہماری بے وقوفیوں ہی کی وجہ سے ہنسیں گی ، وہ لوگ حیران ہوں گے کہ ایک قوم ایسی بھی تھی جو ووٹی سے چور مرواتی تھی ، سچی بات ہے نا جب حکومت بجائے سائنسدانوں اور ڈاکٹروں سے مشاورت کرنے کے ، کرونا وباء پہ مولوی حضرات سے رائے لے گی تو یہی کہا جائے گا ،آپ کود سوچیں جب سائیکل کاپنکچر لگوانے کو پنسار کے لونڈے کے پاس جایاجائے گا تو وہ بھی اپنی پھکی ہی فروخت کرے گا بلکہ گمان غالب ہے ساتھ ہی وہ سائیکل کو شیطانی چرخہ قرار دے کر اسے بیچنے کا بھی مشورہ دے ڈالے گا ۔

خیر ! اگر دیکھا جائے تو ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ۔ کرونا کون سا کہیں چلا گیا ہے اور جو ہماری حرکتیں ہیں یہ جاتے جاتے بھی ساتھ بہت کچھ ہی لے کر جائے گا لیکن اگر ہم چاہیں تواسے اکیلے ہی بھیج سکتے ہیں اور اپنے دوست ملک چین کی طرح وقت سے پہلے بھی بھیج سکتے ہیں ۔بلکہ ایک قدم اگے بڑھتے ہوئے اگر اپنے رویوں میں سدھارلے آئیں تو تاریخ میں کرونا کے باب میں ایک مہذب قوم کر طور پر اپنا نام بھی لکھواسکتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :