نیا امریکی صدر اور امن کی امیدیں

پیر 25 جنوری 2021

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

ایک طویل انتخابی معرکے کے بعدجوبائیڈن نے46ویں امریکی صدرکا حلف اٹھا لیا ہے۔عمومی طور پر امریکہ میں انتخابی عمل اور اس کے بعدانتقال اقتدارکا مرحلہ اتنا کٹھن اور دشوار گزار نہیں ہوتا۔اس بار مگروائیٹ ہاؤس کے باسی کانام ڈونلڈٹرمپ تھا۔اس نے جاتے جاتے بھی نئی تاریخ اس طرح سے رقم کی کہ انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکارکردیاجوکہ امریکی روایات کے برعکس بات تھی۔

یہی نہیں بلکہ اس سے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے مسلح جتھے کی مدد سے نظام حکومت کو یرغمال بنانے کی کوشش کی گرچہ ناکام رہا۔اسی لئے اسے بے عزت کر کے نکالاگیا،یعنی رخصتی سے ایک ہفتہ قبل اس کا مواخذہ کیا گیا۔عمومی امریکی مزاج ہے کہ وہ اپنے صدرکی تذلیل نہیں کرتے۔سربراہ مملکت ہونے کے ناطے ناصرف اسے ہر طرح کی عدالتی کاروائی سے استثنیٰ حاصل ہوتاہے بلکہ عوام بھی اس کی توہین نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

یقین کیجئے جس طرح کی کمنٹری اور تنقید ہم اپنے سربراہان مملکت کے متعلق کرتے آئے ہیں امریکی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔
صدر ٹرمپ امریکی تاریخ کا متنازعہ ترین صدر گزراہے۔مغرور،بدتمیز،بدلحاظ،نسلی تعصب رکھنے کے علاوہ بھی بے پناہ خامیوں کا مالک تھا۔شایداسی لئے حالیہ انتخابات میں ناکامی سے دوچارہوا۔ورنہ امریکہ میں کم ہی ایساہوتا ہے کہ کوئی صدردوسری مرتبہ کی مدت کے لئے منتخب نہ ہو۔

جب سے صدارت کا منصب قائم ہوا،یعنی 1789میں صدر جارج واشنگٹن کی آٹھ سالہ مدت صدارت سے لے کرباراک اوباماکی دو الیکشن جیت کرآٹھ سالہ صدارتی عہدے کی معیادتک یہ روایت نظر آتی ہے ۔جارج بش سینئرکے علاوہ حالیہ تاریخ میں دوسرا نام ٹرمپ کا ہے جودوسری چارسالہ مدت کے لئے منتخب نہ ہوسکا۔مگرایک بات غور طلب ہے ہمارے لئے کہ ڈونلڈٹرمپ کے جارحانہ ذاتی رویے کے باوجوداس کے دور حکومت میں امریکہ بیرون ملک کسی بھی جنگ میں نہیں الجھا۔

صدر ٹرمپ بڑبولا ضرورتھامگراس کے عہد میں سمندر پار سے امریکی فوجیں واپس ضرورآئی ہیں مگرکسی نئے محاذپر نہیں بھیجی گئیں۔
جن دنوں عراق جنگ کے عروج کازمانہ تھا۔نائین الیون ہوچکا تھااورمیں نیویارک میں جائے حادثہ دیکھنے گیا تھا۔اس دہشت گردی کے واقعے نے پوری دنیا کوہمیشہ کے لئے تبدیل کر کے رکھ دیا ۔نیویارک کے زیرزمین ریلوے اسٹیشن پرمسافر اپنی اپنی ٹرین کے انتظارمیں کھڑے تھے۔

امریکہ میں زیرزمین ریل کے نظام کوسب وے کہا جاتا ہے۔ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے سب وے اسٹیشن پلیٹ فارم پر میں کوئنیزکو جانے والی ٹرین کا منتظرتھا،یہاں ایک امریکی بزرگ سے گپ شپ ہونے لگی۔وہ عراق میں امریکی فوج بھیجنے کے سخت مخالف تھا۔اس بڈھے کا استدلال مگرمنفردتھااور قائل کرلینے والا۔بزرگوارکاکہنا تھاکہ ہر ملک کے اپنے مسائل اورمشکلات ہوتی ہیں۔

ہر ریاست کو چاہئیے اپنے درپیش اندرونی مسائل پرتوجہ مرکوزکرکے انہیں حل کرنے کی کوشش کرے۔امریکہ کو اپنے داخلی معاملات پر توجہ دینی چاہیے اور عالمی پولیس مین کا کرداراپنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئیے۔یہی سوچ اور عمومی رویہ امریکی عوام کی غالب اکثریت کا ہے۔یعنی ان کی حکومت کو داخلی امور پر توجہ مرکوزکر نے کی ضرورت ہے اورخارجی معاملات میں زیادہ نہیں الجھنا چاہئیے۔

مقامی لوگوں کے نزدیک امریکہ بذات خود ایک مکمل دنیا ہے،اسے نہ عالمی مسائل پرزیادہ فکر مند ہوناچاہئیے اور نہ ہی اپنی اندرونی الجھنوں ودیگرمسائل کے متعلق بیرونی دنیا کا کوئی اثرقبول کرنے کی ضرورت ہے۔ممکن ہے کچھ قارئین کوالگ تھلگ رہنے کے اس استدلال میں کسی حدتک خود غرضی بھی نظرآئے مگر حقیقت یہی محسوس ہوتی ہے۔یہ ہمیں پسند آئے، یا پھرنا پسند ہو،امریکہ میں جو لوگ جنگوں کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں تو ان میں سے اگر اکثریت نہیں توبڑی تعدادامن پسندوں کی نہیں بلکہ اس نقطہ نظرکی حامی ہوتی ہے کہ ہمیں اپنے کام سے کام رکھنے کی ضرورت ہے۔

یہ احتجاجی جنگ کے فلسفے یا امن کی آشاکے سبب ہی اکٹھے نہیں ہوتے،بہت سے ان میں اس لئے بھی سراپااحتجاج نظرآتے ہیں کہ ”سانوں کیہ؟“ہمیں اس بیرونی معاملے میں الجھ کر قیمتی امریکی جانیں ضائع نہیں کرنی چاہئیں۔
حیرت انگیز طور پرامریکی عوام کی بیرونی دنیاکے متعلق معلومات انتہائی کم ہیں،بلکہ اگر کہا جائے کہ ظالمانہ حدتک ناقص ہیں تو بھی جھوٹ نہیں ہوگا۔

سب وے کا ابھی تذکرہ کررہا تھا،ایک دفعہ سب وے اسٹیشن پر کھڑی فربہ نیگروخاتون نے ٹرین کے انتظار میں ،اپنافضول وقت گزارنے کے لئے میرا حال احوال پوچھنے کے بعدمیرے ملک کی بابت سوال کیا۔پاکستان کا نام سن کر کہنے لگی کہ اچھا ہواتم جنگ شروع ہونے سے پہلے پہلے ہی امریکہ آ گئے۔وہاں تو ہڑبونگ مچاہوا ہے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ شروع کیا تھا،تورابوراکی تاریخی بمباری اورطالبان کے خلاف فضائی اور زمینی آپریشن جاری تھا۔

حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ اس نیک بخت کو افغانستان اور پاکستان کا فرق بھی معلوم نہیں تھا۔مگرآپ زیادہ حیرت زدہ مت ہوں کہ عمومی عالمی معلومات کا امریکی سماج میں یہی حال ہے۔دنیا سے الگ تھلگ اور اپنے آپ میں گم رہنے کا تصورہی غالب سماجی رویہ ہے۔مگرامریکی صنعتوں اورمعاشرے کو توانائی کے حصول کے لئے بیرونی دنیا،بالخصوص مشرق وسطیٰ پر انحصارکرنا پڑتارہا ہے۔


چونکہ دنیا میں تیل کی مجموعی پیداوارکاتقریباًتیس فیصدامریکہ استعمال کرتاہے۔یہ صورتحال آنے والے دنوں میں یکسر تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔جس کی وجہ تیل نکالنے کی نئی ٹیکنالوجی ہے۔ اس شیل ٹیکنالوجی کے برائے کارآنے کے بعدامریکہ سادہ الفاظ میں بیرونی دنیا سے تیل درآمد کرنے کامحتاج نہیں رہا۔گزشتہ نصف صدی میں برپا ہونے والی زیادہ تر امریکی جنگوں کاموجب و محرک یہ تیل بیان کیا جاتا ہے۔

آپ نے محسوس کیاہوگا کہ تیل کی عالمی قیمت پچھلے سات آٹھ سال میں مسلسل گزشتہ پچاس برسوں کے مقابلے میں انتہائی کم رہی ہے۔۔اس کی وجہ یہی تیل زمین سے نکالنے کی نئی ٹیکنالوجی ہے جس کی بدولت زیرزمین جابجابکھراہواتیل جو پہلے نہیں نکالاجا سکتا تھا۔،اب اسے نکالا اوراستعمال کیا جارہاہے۔یہ طریقہ ذرا مہنگامگر انتہائی کارگر ہے۔اسی کے طفیل اب امریکہ ،سعودی عرب اورایران کے تیل کا موازنہ اپنے ذخائرسے کررہا ہے اورتیل برآمد کرنے والے ملک بن گیاہے۔


امریکی جنگوں کے سب سے بڑے موجب تیل اور کیمونسٹ سوویت یونین کے ٹو ٹنے کے بعد بظاہرامریکہ کے کسی نئی جنگ کا حصہ بننے کے امکانات بڑے محدودنظرآتے ہیں۔چین اور سوویت یونین کے کیمونزم میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ چین اپنا نظام معیشت یا کوئی بھی نظریہ ایکسپورٹ کرنے کاخواہش مندنہیں ہے۔اس کی ساری توجہ معیشت پرہی مرکوزہے۔اسی لئے میرے خیال میں جوبائیڈن کے دورِ حکومت میں معیشت کے میدان میں توجھڑپیں ہوتی رہیں گی۔مگرعسکری محاذوں پرامریکہ شایدکسی نئے معرکے کاحصہ نہیں بنے گا۔امید کی جاسکتی ہے کہ نئے امریکی صدر کاعہدامن کا دور کہلائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :