اگلے سو سال اور ترکی

بدھ 26 اگست 2020

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کیلئے معاہدہ ہو گیاہے۔جس سے عالم اسلام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ تاہم اب امریکا نے سعودی عرب پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل سے اپنے تعلقات بحال کرے۔ صدر ٹرمپ کے مشیر نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے اس اقدام سے ان کا مشترکہ دشمن ایران کمزور ہوگا۔پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات بھی ان دنوں بحث کا موضوع ہیں۔

پاکستانی قوم اور حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ قائد اعظم آزاد اور خود مختار فلسطین کے حامی تھے اور انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر اپنا نقطہ نظر بیان کردیا تھا۔۔قائد اعظم نے  بہت پرزور طور پر فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی حمائیت کی تھی،اور مسلم لیگ نے ریاست فلسطین کے قیام کے حق میں قرارداد بھی منظور کی تھی۔

(جاری ہے)


تقریباً 100 سال پہلے 1917 میں اعلانِ بالفور ہوا۔

اس کے تقریباً 30 سال بعد اسی معاہدے کے تحت اسرائیل کا قیام  1948 میں عمل  میں لایا گیا۔پاکستان کی طرح یہ بھی ایک نظریاتی ریاست ہے،اعلانِ بالفور برطانوی حکومت کی صیہونی یہودیوں سے ایک خفیہ معاہدے کی توثیق تھی جس کا تعلق پہلی جنگِ عظیم کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے ٹکڑے کرنے سے تھا۔ یہ بعد میں سامنے آ گیا۔ اس اعلان کی علامت برطانوی دفترِ خارجہ کے ایک خط کو سمجھا جاتا ہے جو 2 نومبر 1917ء کو آرتھر جیمز بالفور(سیکریٹری خارجہ) نے صیہونیوں کے نام لکھا تھا۔

اس خط میں برطانیہ نے صیہونیوں کو اس بات کا یقین دلایا کہ وہ فلسطین کی سرزمین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں بھر پور اور عملی مدد دیں گے مگر اس بات کو مدِ نظر رکھا جائے کہ فلسطین کی موجودہ غیر یہودی آبادی(مسلمان اور مسیحی) کے شہری و مذہبی حقوق یا دوسرے ممالک میں یہودیوں کی سیاسی حیثیت کو نقصان نہ پہنچے۔ خط میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس معاہدہ کی توثیق برطانوی کابینہ کے ایک خفیہ اجلاس میں 31 اکتوبر 1917ء کو ہو چکی ہے۔


1948 میں ریاست اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی عرب اور اسرائیل پہلی بار ایک دوسرے سے ٹکرائے اور اس ٹکراؤ کو عرب اسرائیل جنگ 1948ء کا نام دیا گیا جبکہ اسرائیلی اسے "جنگ آزادی" کہتے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین پر قابض ہوتے ہی علاقے کی عرب اقلیت پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے جس کی وجہ سے عربوں کو مجبوراً اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ بے خانماں عربوں کی تعداد جلد ہی 10 لاکھ تک پہنچ گئی۔

عرب پوری طرح مسلح یہودی دستوں کا مقابلہ نہ کرسکے اور 15 مئی 1948ء تک اندرون فلسطین عربوں کی مزاحمت ختم ہو گئی۔ 14 اور 15 مئی کی درمیانی شب 12 بجے یہودیوں نے تل ابیب میں ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔ عربوں نے اس ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور مصر، شام، اردن، لبنان اور عراق کی افواج نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ 1949ء  کے امن معاہدوں کے تحت ختم ہو گئی۔

اس کے بعد6 روزہ جنگ جسے عرب اسرائیل جنگ 1967ء تیسری عرب اسرائیل جنگ اور جنگ جون بھی کہا جاتا ہے مصر، عراق، اردن اور شام کے اتحاد اور اسرائیل کے درمیان لڑی گئی جس میں اسرائیل نے فیصلہ کن کامیابی حاصل کی۔ جنگ لبنان 1982 سے مراد لبنان پر اسرائیلی حملے کو کہا جاتا ہے جو 6 جون 1982ء کو شروع ہوا جب اسرائیل نے جنوبی لبنان  پر حملہ کیا۔ جس کا مقصد ابو ندال نامی تنظیم کے خلاف قدم اٹھانا تھا۔


ستمبر 2011 میں امریکہ میں دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہوا۔ جوکہ ایک بڑی سازش کا حصہ ہے۔ یہودیوں کا ایک پروگرام ہے‘ جسے ان کی طرف سے گلوبلائزیشن کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس گلوبلائزیشن کے خلاف اگر دنیامیں کہیں ردّعمل ہے تو یورپ اور امریکہ میں ہے‘ ہمیں تو پتا بھی نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ہمیں آگاہی ہی نہیں ہے‘‘ ہمیں کیا پتا کہ نوعِ انسانی کی قسمت کے بارے میں کیا فیصلے ہو رہے ہیں۔

یہ گلوبلائزیشن کے لیے کبھی سی ایٹل (Seattle) میں جمع ہوتے ہیں تو کبھی ڈیووس (Davos) میں اور کبھی‘واشنگٹن میں۔ ان کا دوسرا پروگرام عظیم تر اسرائیل کا قیام ہے کہ ہمیں عرب دنیا کے عین درمیان میں ایک بڑی مملکت ضرور بنانی ہے۔ یہ گریٹر اسرائیل ان تمام علاقوں پر مشتمل ہوگا جہاں کبھی یہودی قومی طور پر آباد رہے ہیں۔ ویسے تو وہ اپنے دورِ انتشار (Diaspora) میں پوری دنیا میں رہے ہیں‘ لیکن گریٹر اسرائیل میں وہ فلسطین‘ شام‘ ترکی کا مشرقی اور جنوبی حصہ‘ مصر کاجوشن جو دریائے نیل کا زرخیز ڈیلٹا ہے اور عراق کے علاوہ سعودی عرب کا شمالی حصہ‘ جس میں خیبر ہے جہاں یہودیوں کے قلعے تھے اور مدینہ منورہ جہاں ان کے تین قبیلے آباد تھے‘ ان علاقوں کو شامل کرنا چاہتے ہیں اور اس کی طرف پیش رفت ہو رہی ہے۔

چنانچہ عراق کو امریکہ نے فتح کیا تو شیرون نے کہا کہ عنقریب عراق پر ہمارا قبضہ ہوگا۔تیسری چیز جو اْن کے پیش نظر ہے وہ مسجد اقصیٰ اور قبہ الصخرہ کو گرا کر تیسرا معبد ِ سلیمانی (Third Temple of Solomon) تعمیر کرنا ہے۔نہتے فلسطینی لوگوں پر اسرائیلی مظالم آئے روز کا معمو ل ہے۔ مسلم دنیا بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔اسرائیل کے ارد گرد تمام مسلم ممالک ہیں  لیکن وہ اپنی ریاستی دہشت گردی جاری رکھے ہوئے ہے۔


کتاب اگلے سو سال  ( The Next 100 Years) کے  امریکی مصنف جارج فرائیڈمین کے مطابق ابتدائی طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مدد سے 2020 اور 2030 کی دہائی میں یوریشیا میں تین اہم طاقتیں ابھریں گی: ترکی، پولینڈ اور جاپان۔، ترکی اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا دے گا اور ایک علاقائی طاقت بن جائے گا، جیسا کہ عثمانی سلطنت کے دور میں تھا۔ ترکی کے اثر و رسوخ کا دائرہ عرب دنیا میں پھیلے گا، جو اس وقت تک شمال، روس اور دوسرے سابقہ سوویت ممالک میں تیزی سے بکھری پڑی ہوں گی۔

اسرائیل ایک طاقتور قوم کی حیثیت سے برقرار رہے گا اور فوری طور پر خطے میں واحد ملک ہوگا جو ترکی کے اثر و رسوخ سے باہر رہے گا۔ تاہم، ترکی کی فوجی اور سیاسی طاقت کی وجہ سے اسرائیل ترکی کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہوگا۔مصنف نے اس کتاب میں ترکی کا نیا متوقع نقشہ بھی دیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اسرائیل کی آبادی تقریباً 9 ملین ہے اور مسلم ممالک کی آبادی تقریباً 2 بلین ہے۔ظاہر ہے موجودہ دور میں صرف عددی برتری کافی نہیں ہوتی۔ ایمان، اتحاد،جدید ٹیکنالوجی، جذبہ جہاد اور جدید ذرائع جنگ کے ساتھ مسلم امہ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :