نواز شریف سے یک جہتی مارچ کیوں نہیں ہو رہا ؟

پیر 25 مارچ 2019

Ammar Masood

عمار مسعود

دو ہزار اٹھارہ کے متنازعہ  انتخابات کے بعد سے میڈیا جس نادیدہ سنسر کا شکا ر ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ خبریں روک دی جاتی ہیں، مختلف نقطہ نظر والےاینکر فارغ کر دیئے جاتے ہیں، پروگرام ایڈیٹ کروائے جاتے ہیں، اخبارات کی کاپیاں غائب ہو جاتی ہیں، کالم روک دیئے جاتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مکمل طور پر نادیدہ قاتوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔

  اس موقعے پر سوشل میڈیا وہ واحد فورم ہے جہاں لوگ دل کھول کر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں۔ کھی فصاحت اور کبھی غلاضت سے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔
انتخابات سے پہلے عمران خان نے کرپشن کا جو بیانیہ عوام کے سامنے رکھا وہ بہت حد کامیاب رہا ۔ لیکن یہ گولی سب کو ہضم نہیں ہوئی۔ بہت سے اس بیانیئے سے اختلاف کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ انتخابات میں کھلم کھلا دھاندلی کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتے ہیں ، بہت سے لوگ نواز شریف کے بیانیئے یعنی "ووٹ کو عزت دو" اور خلائی مخلوق " کی کارستانیوں  کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

مگر انکی آواز کو سننے کے لیئے اب مین سٹریم میڈیا پر کوئی فورم باقی نہیں ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ ن کے لیئے سوشل میڈیا کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ اس کے پیش نظر سوشل میڈیا کے والنٹیئرز نے ازخود تئیس مارچ  کو نواز شریف ساتھ یک جہتی کی خاطر کوٹ لکھ پت جیل کے بایر جمع ہونے کا فیصلہ کیا۔
اس قصے کی ابتداء اس وقت ہوئی جب مریم نواز نے ایک طویل عرصے کے بعد وقتا فوقتا اپنے ٹوئیٹ کے ذریعے نواز شریف کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔

نواز شریف سے محبت کرنے والے ایک، ایک ٹوئیٹ سے فکر مند ہوتے رہے۔ انکی تشویش میں اضافے کی وجہ یہ بھی تھی کہ کسی بھی پریس کانفرنس ، قومی اسمبلی یا سینٹ کی کاروائی میں نواز شریف کے صحت کے حوالے سے اس شدت سے سوال نہیں اٹھایا گیا جس شدت کی تشویش کا اظہار مریم نواز کی ٹوئیٹس سے ہو رہا تھا۔ اس بات سے سوشل میڈیا کے کارکن اپنی اپنی منتخب کردہ قیادت سے نہ صرف بد ظن بلکہ طعنہ زن بھی ہوئے ۔


#March23WithNawazSharif انہی عوامل کی بناء پر سوشل میڈیا میں کے ہیش ٹیگ کا آغاز ہوا اور چند گھنٹوں میں یہ پاکستان کا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔  سوشل میڈیا کے والنٹئرز گذشتہ چند دنوں میں جب چاہتے اس ہیش ٹیگ کو ٹاپ ٹرینڈ بنا دیتے۔ اس مہم میں شریک ہونے والوں افراد کا تعلق دنیا بھر اور ہر طبقہ فکر سے رہا۔ کوئی اس یک جہتی مارچ کے لیئے فنڈز بھیجنے کو تیار تھا ، کوئی اپنے علاقے سے بھر، بھر کر بسیں لانے کا وعدہ کر رہا تھا، کسی نے لاوڈ سپیکر کا انتظام کرنا تھا اور کوئی انسانی ہاتھوں کی طویل ترین زنجیر بنانے کا دعوی کر رہا تھا۔

یہ تمام لوگ اس تحریک میں رضاکانہ  طور پر شریک ہوئے اور روز بروز یہ قافلہ بڑھتا گیا۔ اس تحریک یک جہتی مارچ کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ مسلم لیگ ن کے کسی بھی لیڈر نے اسکی حمائت یا مخالفت میں کھل کر بات نہیں کی۔ نہ ہی اس مارچ کا ذکر پارٹی کی کسی پریس بریفنگ میں آیا۔ حتی کہ مریم نواز نے بھی کھل کر اپنی کسی  ٹوئیٹ میں  اس مارچ کی حمائت نہیں کی۔

لیکن چونکہ مسلم لیگ ن میں سوشل میڈیا کو سنیجیدگی سے صرف مریم نواز نے ہی استعمال کیا ہے اس لیئے بہت سے لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ مریم نواز ہی اس مارچ کی روح رواں ہیں۔ لیکن اس بات کا عندیہ نہ کبھی انکی کسی ٹوئیٹ سے ملا ، نہ کسی صحافی نے کبھی اس بات کی تصدیق کی۔ یہ عجیب تحریک تھی جو کارکنوں کے ذریعے اپنی قیادت سے اپنے لیڈر کی خاطر آواز بلند کرنے کا  مطالبہ کر رہی تھی۔


شنید یہ ہے کہ درون خانہ پارٹی کی رائے بھی اس یک جہتی مارچ کے بارے میں منقسم رہی۔ ایک طبقے کی رائے کے مطابق نواز شریف کی ضمانت اب کسی بھی پیشی پر ہو سکتی ہے اسلیئے اس مارچ سے گریز کیا جائے کیونکہ اگر اس یک جہتی مارچ کے دن کارکنوں کی متوقع تعداد حد سے بڑھ گئی، کوئِ غلط نعرہ لگ گیا  تو ذرا سی بدمزگی سے  بہت زیادہ نقصان  ہو سکتا ہے۔

دوسرے گروپ کی رائے کے مطابق عمران خان کی حکومت کی راہ میں کسی قسم کے روڑے اٹکانے کی ضرورت نہیں۔ حکومت کی بد انتظامی اور معاشی منصوبہ بندی کا جو ابتر حال ہے اس کی وجہ سے یہ حکومت خود ہی کسی دن دھڑام سے گر پڑے گی۔ اس متنزعہ حکومت سے انتقام کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں حکومت کرنے دی جائے تاکہ جب وزیر خزانہ کے حسب خواہش " عوام کی چیخیں " نکلنا شروع ہو جائیں تب احتجاج کیا جائے اس سے پہلے کی ہوئی کوئی بھی کاروائی ایک متنازعہ حکومت کو "سیاسی شہید " بنانے کے مترادف ہو گی۔

چند لوگ  دبے لفظوں میں اس سوچ کے بھی حامل رہے کہ نواز شریف کسی طرح بھِی جلد بازی میں "ڈیل " کر لیں تاکہ اقتدار میں ایک دفعہ پھر انکا حصہ بن سکے۔ اور اس" مبینہ ڈیل " کی راہ میں یہ مارچ حائل ہو سکتا ہے۔ابھی بحث کا بازار گرم ہی تھا کہ اچناک ٹی وی سکرینوں پر نواز شریف کا بیان جگمگانے لگا جس میں تئیس مارچ کے" یک جہتی مارچ" سے کارکنوں کو منع کر دیا گیا جس کے ساتھ ہی" یک جہتی مارچ"  کا جنون جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔

اس صورت حال سے چند  بڑے واضح نتائج اخذ کیئے جا سکتے ہیں۔   پہلا یہ کہ مسلم لیگ ن کا سوشل میڈیا مریم نواز کی راجدھانی ہے ۔ وہ جب چاہیں اسے متحرک کر سکتی ہیں ۔ دوسرا حکومت کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ اپوزیشن بھی اب انکی تباہی کے راستے میں حائل نہیں ہونا چاہتی ، تیسرا ن لیگ کے لیڈران کی رائے مختلف ہو سکتی ہے مگر نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے کو ابھی بھی کوئی تیار نہیں اور چوتھا  یہ کہ تمام تر اختلافات، الزامات اور قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود پارٹی میں ابھی بھی حتمی اور اٹل  رائے نواز شریف کی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :