رانا ثنا اللہ کی گرفتاری،قوم کو حقائق سے آگاہ کیا جائے

پیر 22 جولائی 2019

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

ملک پاک کا سیاسی ماضی مجموعی طور پر قابل فخر نہیں ہے۔ جمہوری سویلین حکومتوں اور غیرجمہوری حکومتوں کے ادوار کے قصے شاندار روایات کے امین کبھی نہیں رہے ہیں۔ کرپشن،بدعنوانی اور سیاسی بے راوی کے باعث ملک ترقی کی منازل طے کرنے میں ناکام رہا ہے جس کے خواب دیکھے گئے تھے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کے خلاف تھرڈ فورس پاکستان تحریک انصاف نے کرپشن اور بدعنوانی کیخلاف نعرے پر عوام میں پذیرائی حاصل کی اور کچھ انعامات کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

وزیراعظم عمران خان بار بار احتساب کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ درست ہے۔ احتساب کریں مگر احتساب سے سیاسی انتقام کی بوآنے سے احتساب محض ایک کھوکھلا نعرہ بن کر رہ جائے گا۔ جس طرح ماضی میں ایوب خان،ضیا الحق اور پرویز مشرف نے احتساب کا نعرہ لگاکر سیاسی مخالفین کی خریداریاں کیں تھی اور سیاسی جماعتوں میں نقب لگا کر نئے گروپ تشکیل دیئے تھے۔

(جاری ہے)

جس کے نتائج قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ عمران خان صاحب آپ بخوبی واقف ہیں۔ ناقد بھی رہے ہیں۔ مگر آج جس طریقے سے گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ مقدمات بن رہے ہیں۔ انتہائی قابل افسوس امر ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جارہے ہیں اور نہ ہی مناسب ٹرائل ہورہا ہے۔ بس یکطرفہ ٹریفک ہی چلتی نظر آرہی ہے۔ محض الزامات پر گرفتاریاں اور مقدمے ہورہے ہیں۔

الزامات کی صحت کے بارے میں میڈیا کو آگاہ نہیں کیا جارہا ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس شواہد سامنے لائے جا رہے ہیں۔ 
حکومت کی جانب سے جس طریقے سے رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کی گئی ہے۔ وہ قطعی مناسب نہیں ہے۔ ریاستی ادارے ایسا ظاہر کر رہے ہیں جیسے رانا ثنا اللہ کی وجہ شہرت ہی گینگ لیڈر کی ہے اور اشتہاری مجرم ہے۔ رانا ثنا اللہ اگر کسی جرم میں ملوث ہے تو قوم کو بتا یا جائے کہ صوبائی اسمبلی پنجاب کا ممبر اور سابق وزیر قانون جنہیں عوام منتخب کرتے رہے ہیں وہ جرائم پیشہ ہے۔

رانا ثنا اللہ کے جرائم سے پردہ اٹھا کرعوام کو اصلیت بتائی جائے۔ بصورت دیگر عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ حکومت سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے غیراخلاقی اور غیر انسانی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔
 اے این ایف کے حکام کی جانب سے اختیار کردہ موقف سے شک و شہبات نے جنم لیا ہے کہ کہانی کچھ اور ہے۔ اے این ایف کے بیان کو حقیقت مان لیا جائے تو زیادہ ضروری ہوتا ہے کہ اے این ایف کے حکام تمام تر تفصیل میڈیا کے سامنے رکھے کیوں کہ رانا ثنا اللہ سابق صوبائی وزیر قانون اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے صوبائی صدر ہیں۔

حقائق کی پردہ پوشی ایک جانب رانا ثنا اللہ کو بے گناہ اور دوسری جانب حکومت کی بدنیتی ظاہر کرتی ہے۔ رانا ثنا اللہ کی گرفتاری سے لیکر اب تک عوام کا عمومی تاثر ہے کہ یہ سب کچھ حکومت کی ڈرامے بازی ہے۔ بانگ دہل بولنے اور شریف برادران کا دفاع کرنے کی پاداش میں پکڑ ہوئی ہے۔ رانا ثنا اللہ پر عائد کردہ الزامات کی حیثیت عوام میں جھوٹے الزامات سے کچھ زیادہ نہیں ہے عوام نے حکومتی موقف کو مسترد کردیا ہے۔

اب حکومت کیلئے ضروری ہے کہ اپنی پوزیشن واضح کرے کہ سچ کیا ہے۔ اگر حکومت حقیقت حال واضح نہیں کرتی ہے یا عائد کردہ الزامات کی صحت واضح کرنے میں ناکام رہتی ہے تو حکومت کی جانب سے رانا ثنا اللہ کی گرفتاری اوربنائے گئے مقدمات انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے اور فسطائیت کی ظالمانہ مثال ہے کہ کسی سیاسی مخالف کے خلاف منشیات کی اسمگلنگ کا کیس ڈال کر سیاسی انتقام لیا جائے۔ عدالت عظمیٰ کواس مقدے کا خصوصی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جوڈیشل کمیشن تشکیل دیکر مکمل تحقیقات کی جائیں اور حقیقت عوام کے سامنے لائی جائے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :