وہ قومی نظریہ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ 20 اگست 2021

Asif Rasool Maitla

آصف رسول میتلا

وہ  مستحکم سوچ جو آپ کو عملی زندگی میں  قدم اٹھانے  پر مجبور کرے اس کو نظریہ کہتے ہیں۔ اور اگر فلسفہ کی رو سے دیکھا جائے  تو اس کے معنی قیاس کے ہیں  اور نظریہ کا مطلب  دیکھا جائے تو   " نظر سے دیکھنا ، ناظر کہا جاتا ہے۔اور اس کا مطلب تھیوریا سے آیا ہے  جہاں اسے فلسفہ نظریہ کا  تصور یونانی سمجھا جاتا ہے۔
اخلاقیات کی نسبت انسانی اعمال سے ہے اور   حضور پاکﷺ نے فرمایاکہ" اِنماالاعمال بالنىات " ترجمعہ۔

اور عمل کا دارو مدار نیتوں پر ہے  نیتوں سے مراد ہر انسان کے ارادے کی پختگی پر ہوتا ہے  اور یہ سب کچھ انسان کے اپنے ہاتھ اور کنٹرول میں ہوتا ہے کیونکہ انسان نیت اور ارادوں کو زیادہ طاقتوربنانے کیلئے اخلاقی اصولوں کا پابند ہوتا ہے  اگر انسان کے فطری نظام کومد نظر  رکھ کر دیکھا جائےتو خیر کا طالب اور شر سے گریزاں ہےفلسفے کی سوچ اور مذہب کے اصولوں میں  خیر اور شر  کا نظریہ مرکزی حیثیت کا حامل ہے  ۔

(جاری ہے)


 عظیم یونانی فلسفی سقراط کا خیال تھا کہ اگر ہمیں نیکی یا خیر کا علم ہو تو ہم نیکی ہی کریں گے اور اگر بدی یا شر کا صحیح علم ہوگا تو اس سے بچیں گے۔ گویا نیکی علم سے اور بدی جہل سے سرزد ہوتی ہے۔ افلاطون نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ریاست‘‘میں چار بڑے فضائل بیان کئے ہیں۔ یہ امہات فضائل حکمت‘ شجاعت‘ ضبط نفس اور عدالت ہیں۔ ان فضائل ہی کی بنا پر انسان خیر کو اعلیٰ درجے تک لے جاتا ہے۔

ہر لذت انگیز اعمال کو خیر نہیں کہا جا سکتا۔ صرف وہ اعمال خیر کے زمرے میں آئیں گے جن کے نتائج کا زیادہ تر حصہ مثبت ہو اور جو بھلائی کی طرف مددگار ہوتے ہیں۔ اس طرح پتہ چلتا ہے کہ انسان کا لذت و الم اور خیر و شر کا عیار کس قدر مختلف ہے۔ کسی انسان کے نظریہ حیات کو بھی جانچنے کیلئے خیروشر کے ترازو سے ماپا جا سکتا ہے۔ زندگی میں انسان خوشی‘ غمی‘ دکھ اور سکھ کے تجربات سے گزرتا ہے۔

یہی اس کی زندگی میں خیروشر کا باعث بنتے ہیں
1857 ء کی جنگ آزادی  میں سب سے ذیادہ  نقصان مسلمانوںکو ہوا اور اس کے دس  سال بعد علی گڑھ مکتب فکر  کے بانی  سر سید  احمد خاں نے ہندی اردو  جھگڑے کے باعث 1867ء میں دو قومی نظریہ پیش کیا
 اور اس نظریے کے مطابق نہ صرف متحدہ قومیت  کے نظر یے کو مسترد کر دیا گیا بلکہ ہندوستان  ہی کے  ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو الگ قومیں قرار دیا گیا ۔

اور اس طرح  انڈین  نیشنل ازم  پر یقین  رکھنے والوں کے لیے  دو قومی نظریہ صوراسرافیل بن کو گونجا اور مسلمانوں کی شاہراہ آزادی  پردو قومی نظریہ وہ پہلا سنگ میل ہے جسے مشعل راہ بنا  کر مسلمانان ہند بالآخر  1947ء  میں اپنی منزل مقصود  کو پا لیا ۔
یورپ کی سیر اور وہاں مطالعہ اور پھر مسجد قرطبہ میں دو نفل اور اذان  کے بعد  ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ نے  عملی  سیاست میں  پر عزم اور بھرپور سر گرمی کے ساتھ حصہ لینا شروع کیا ۔

تو آپ کے سیاسی نظریات سامنے آئے۔ 1930  میں الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ  کے اکیسویں سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے آپ نے نہ صرف دو قومی نظریہ کی کھل کر وضاحت کی بلکہ اس نظریہ کی  بنیاد پر آپ نے مسلمانان ہند  کی ایک الگ ملک کے قیام کی پیشن گوئی بھی کر دی دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے دوران میں آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے کئی ملاقاتیں بھی کیں جن کا صرف مقصد  دو  قومی نظریے کی ہی بنیاد پر  مسلمانان ہند کے حقوق کے تحفظ لیے کوئی قابل قبول حل تلاش کرنا تھا  
پاکستان دنیا کے نقشے پر آ گیا اور اس کو تسلیم بھی کر لیاگیا اس میں بہت سے لوگوں کی دن رات کی محنت اور خون شامل ہے ۔

مگر" وہ  "دو  قومی نظریہ کہاں کھو گیا شائد ہم بھول گئے یا جان بھوجھ کر بھلا دیا  اس نطریے کو کچھ خاندان کے لوگوں نے ہمارے دل و دماغ پر ایسا جادو کر دیا ہے کہ  انہوں نے ہمیں دو قومی نظریہ بھلا دیا ہے  اور عوام بھی ان کے جادو کا ایسی شکار ہوئی کہ نان اور بریانی کے چکرمیں اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل بیچ دیا ۔ آج بھی ہمارے چند خاندانوں نے ایسےٹرک کی سرخ بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے کہ جیسے آج بھی بھٹو زندہ ہے ،اولاد ضیاالحق ابھی بھی شیر ہے اور سب جانتے ہیں ہیں یہ ملک کو لوٹ کے لے گئے ہیں مگر آج بھی عوام کو آسانی سے بیوقوف بنا رکھا ہے ۔

اور وہ چند ایک مورثی سیاسی خاندان  اسی لیے مزے میں بے فکر ہیں کہ جب تک کچھ گدھے پاکستان میں موجود ہیں ان کو کوئی پروانہیں ہے انکی سیاست کو کوئی ڈر نہیں ہے
آج بھی بہت سے لوگ ٹی وی پر پروگرام کرتے  ہوئے   انہیں چوروں کی قسمیں کھاتے ہیں کہ  وہ ایماندار ہیں اور اسی لیے وہ بہادر بن جاتے ہیں کہ جب تک ایسے لوگ  اس پاکستان میں موجود ہیں ان کا چورن  بکتا رہے گا ۔

آج تک بہت کم پروگرام میں نے   دیکھے اور سنے ہیں جن میں ہمارے دو قومی نظریہ پر روشنی ڈالی گئی ہو ۔ ہمارے بچوںکو دو قومی نظریے سے روشناس کروایا ہو ۔ معاشرتی علوم کو پڑھتے ہوئے ہم جزباتی ہو جاتے تھےاور خاص طور پر جب قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے چودہ نکات اور دو قومی نظریے کو ہمارے استاد سمجھاتے تھے  ۔ اب تو نئی نسل کے نزدیک دو قومی نظریہ  "وہ قومی نظریہ "بن کر رہ گیا ہے
شاعرمشرق علامہ محمد اقبال ؒ لکھتے ہیں
اس کی رحمت کے سائبان میں ہوں                شہر قاتل میں بھی  امان میں ہوں
ساری دنیا ہے آشنا مجھ سے                  اجنبی اپنے خاندان میں ہوں
آسمانوں پہ خاک ڈال چکا                   اپنے وجدان کی اڑان میں ہوں
کب تراشے گا وقت کا آذر                  قید حالات کی چٹان میں ہوں
وقت اور فاصلوں سے ہوں آذاد             میں زمیں پر نہ آسمان میں ہوں
کھو گئے مجھ کو ڈھونڈھنے والے              میں کسی اور ہی جہان میں ہوں
میری قیمت کوئی چکا نہ سکا                  کب سے رکھا ہوا دکاں میں ہوں
ایک کردار ہوں لہو میں تر                   ہر قبیلے کی داستاں میں ہوں
اپنے ہونے پہ ہے یقین عارف              میں ابھی تک اسی گمان میں ہوں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :