غنڈہ گرد عناصر کے ہاتھوں ریاست یرغمال کیوں ؟

بدھ 11 دسمبر 2019

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

ملک میں جنگل کا قانون اور لاقانونیت کی انتہااس سے زیادہ اور کیا ہوگی کہ نام نہاد قانون کے محافظوں نے قانو ن کی دھجیاں بکھیر دیں ۔انتہائی دلخراش مناظر ٹی وی سکرینوں پر دیکھنے کومل رہے ہیں کہ کس طرح وکلا غنڈہ گردی کرتے ہوئے صحافیوں ،ڈاکٹروں اورپولیس پر تشدد کررہے ہیں ۔ سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ حکومت کی رٹ و ریاست کہیں نظر نہیں آتی ۔

کیا حکومت و ریاست اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ چند غنڈہ گرد عناصر جب چاہیں جس کو چاہیں یرغمال بنالیں اور ان کوکوئی پوچھنے والا نہ ہو ۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق بہت سے لوگ بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے اپنی جان کی بازی ہار گئے ہیں ۔ اس غنڈہ گردی کی وجہ سے جن کے پیارے ان سے بچھڑ گئے ہیں کیاان کوکسی انکوائری یاڈرامے بازی کے بیانات سے واپس لایا جاسکتا ہے ۔

(جاری ہے)

اور ان کے قتل کا اصل ذمہ دار کون ہے ڈاکٹرز ، وکلاء یا حکومت ؟ کون ان مقتولین کے قتل کی ذمہ داری لے گا ؟ ان جان بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کا قاتل کون ہے ؟ بقول مصطفی زیدی
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرو
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اور ان کو ورثا کو انصاف کون دے گا ؟ ویسے تو ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کے نام میں ہی انصاف آتا ہے مگر ملک میں انصاف تاحال ناپید ہے ۔

اس واقعہ نے حکومتی نااہلی و نالائقی کے ساتھ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کا پول بھی کھول دیا ہے ۔پولیس کی ہنگامی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت پر بہت سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں ؟ پولیس نے قبل ازوقت حفاظتی انتظامات کیوں نہیں کئے تھے ؟
اس واقعہ کو کنٹرول کرنے کے لئے وکلا کو اسپتال سے دور کیوں نہیں رکھا گیا ؟ وکلا کس طرح یہاں تک پہنچ گئے ؟ ضلعی انتظامیہ کہیں نظر نہیں آئی وہ کہاں سوئی ہوئی تھی ؟ کالے کوٹ والوں کے ان کالے کرتوتوں کی صرف مذمت کافی نہیں ہے اس پر وکلا تنظیموں کو خود سخت ایکشن لینا چاہئے ۔

وکلا کی صفوں میں چھپے ان شرپسند عناصر کو خود قانون کے حوالے کرنا چاہئے ۔ اس واقعہ سے ایک اور اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم بحثیت معاشرہ کس طرف جارہے ہیں ملک میں عدم برداشت ،نفرت اور غصہ کی آگ کس طرح معاشرے کو سلو پوائزن کی طرح تباہ کررہی ہے ۔ اس وقت معاشرے میں برداشت و رواداری جیسے جذبات کا خاتمہ ہونا لمحہ فکریہ ہے ۔ایک اور سوال ہمارے تعلیمی نظام پر بھی ہے کہ وہ صرف ڈگری ہولڈرز پیدا کررہا ہے مگر ا ن نام نہاد ڈگری ہولڈرز میں تربیت کی شدید کمی ہے ۔

جو تعلیمی ڈگر ی کسی شخص کو انسانیت نہیں سکھا سکتی اس ڈگری کا کیا فائدہ ہے ؟ کاش ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی اہتمام ہو ۔ اعتزاز احسن صاحب نے بلکل درست کہا ہے کہ جنگ کے دنوں میں بھی اسپتالوں کو استثنی دیاجاتا ہے تاکہ وہاں مریضوں کا علاج ہوتا رہے مگر وکلا نے تو ظلم کی حد کردی ہے کہ انسانیت کا سرشرم سے جھک جاتا ہے ۔

اس سے پہلے ینگ ڈاکٹرز کی ہٹ دھرمی اور احتجاج کی وجہ سے بھی مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا یہ کیسے پڑھے لکھے لوگ ہیں جن کے سامنے مریض تڑپ رہے ہیں اور ان کاعلاج نہیں ہورہا ۔ ان نام نہاد پڑھے لکھوں میں زرا بھی رحم و انسانیت نہیں ہے ۔ اس واقعہ پر بھی عمران خان نے نوٹس لیتے ہوئے روایتی بیان دیا ہے اور وزیراعلی نے انکوائری کمیٹی بنا کر رپورٹ طلب کرلی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس کمیٹی کی رپورٹ پر کیا ایکشن ہوگا ؟ کیا ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا ؟ ویسے تو عمران خان کہتے ہیں کہ کمزور اور طاقتور کے لئے ایک جیسا قانون ہوگا کیا اب وکلا کے معاملے پر عملی طور پر یاثابت ہوگا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہے اور قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ۔

مہذب دنیا میں حکومت قانو ن کی حکمرانی کو ہر صورت میں یقینی بنانے کے لئے آگے بڑھتی ہے اور ریاستی رٹ کو یقینی بناتی ہے ۔ حکومت اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا وقت کی ضرورت ہے ۔ اگر چند غنڈہ گرد عناصر اس طرح ریاست کو یرغمال بنالیں تو پھر حکومت اور قانون کی عملداری کا کیا جواز باقی بچتا ہے ؟ اس طرح کے جتھے بناکر اسپتالوں پر حملہ کرنا یہ سرعام ریاست و حکومتی رٹ کے منہ پر طمانچہ ہے ۔

اگر ریاست اس طرح کے شر پسند عناصر کو قرار واقعہ سزانہیں دیتی تو پھر ریاستی اداروں و نظام انصاف پر عام لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا ۔چیف جسٹس صاحب کو بھی اس واقعہ کا ازخود نوٹس فورا لیناچاہئے کیونکہ اس واقعہ میں بدمعاشی کرنے والوں کا تعلق وکلا براداری سے ہے جو کمزور و مظلوم لوگوں کو انصاف دلوانے کا نعرے لگاتے ہیں ۔ مگر جس طرح ان وکلا نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ،پولیس کی گاڑیاں جلادیں ، صحافیوں و مریضوں پر تشدد کیا ، صحافیوں کے موبائل فون چھین لئے ، کیمرامینوں کے کیمریے توڑے ،سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ،اس سے پورے ملک میں خوف وہراس پھیل گیا ہے اس لئے اس واقعہ کی ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات کو شامل کیا جائے اور سی سی ٹی وی میں نظر آنے والے شرپسند وکلا اور ان کو اشتعال دلانے والوں کو ایسی سزا دیں کہ یہ لوگ نشان عبرت بنیں اور لوگوں کو میسج جائے کہ جو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لے گا اس کے خلاف ریاست سخت ایکشن لے گی چاہے وہ کتنا بھی طاقتور گروہ،طبقہ یا شخص ہی کیوں نہ ہو۔

اگر ریاست نے اب کمزوری دکھائی تو پھر ریاست اور حکومت کی رٹ مذاق بن جائے گی ۔حکومت وقت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ رسمی بیانات و ڈرامے بازیوں سے آگے نکل اس صورتحال کی حساسیت کو سمجھے اور مسائل حل کرے ہر طرح کے ہنگامی حالات میں ریاست کی رٹ قائم رہنی چاہئے ۔سب سے بڑھ کر معاشرے میں برداشت ،رواداری ،باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لئے بھی جامع روڈ میپ بنایا جائے بغور جائزہ لیاجائے تو اس واقعہ کی وجہ جوابھی تک سامنے آئی ہے وہ ایک ویڈیوہے جس کا بدلہ لینے کے لئے وکلا نے ڈاکٹروں پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس بدلہ ،غصہ ونفرت کی آگ سے کتنے معصوم لوگوں کی جان چلی گئی اس لئے اس واقعہ سے یہ سبق بھی سیکھناہوگا کہ سیاسی وسماجی انصاف ،قانون کی عملدآری ،برابری اور باہمی رواداری وبرداشت پیدا کئے بغیر ہم پرامن معاشرہ نہیں دے سکتے ۔

کاش ہم ایک ہجوم سے قوم بن سکیں اور بطور شہری اپنے حقوق وفرائض کماحقہ اداکرنے کاشعور آجائے اور ہم اقوام عالم میں مہذب و ترقی یافتہ قوم بن سکیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :