انتظار

جمعہ 28 فروری 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

انتظار ایک اٹل حقیقت ہے ۔خواہش اور حصول کے درمیانی فاصلے کوانتظار کہہ سکتے ہیں۔ہم میں سے ہر کوئی انتظار کی کیفیت سے گزرتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ انتظار کیوں ہوتا ہے ، اگر دل میں کسی شے کی خواہش یا چاہت ہوگی تو ہی انتظار پیدا ہوگا ۔ہم سب انتظار میں ہیں ،کسی نہ کسی شے کا انتظار ،کسی سے ملنے کاانتظار،کچھ کو اچھے وقت کا انتظار، کسی کو اپنے محبوب سے وصال کا انتظار ،کسی کواچھے رشتہ کا انتظار، کسی کو کامیابی کا انتظار ، کسی کو منزل مقصود تک پہنچنے کا انتظار ،کسی کو اولاد کے پیدا ہونے کا انتظار ،کسی بیمار کو صحت مند ہونے کا انتظار ، غلاموں کو آزادی کا پروانہ ملنے کا انتظار ۔

شب فراق ،صبح اُمید کے انتظار میں کٹتی ہے۔ بحثیت قوم ہمیں ملک میں معیشت کی بہتری کا انتظار ہے ، گڈ گورننس کا انتظار ہے ، غریب لوگوں کواچھے روزگار کا انتظار ہے ۔

(جاری ہے)

حالات میں بہتری کاانتظار ،عوام کے مسائل حل ہونے کاانتظار،مہنگائی کم ہونے کاانتظار، انصاف کابول بالاہونے کاانتظار،ظلم وجبر کے ختم ہونے کاانتظار ،ملک میں قانون کی حکمرانی کاانتظار ،دونہیں ایک پاکستان کے وعدے کی عملی تعبیر کاانتظار ، قائداعظم کے وژن کی روشنی میں خوشحال ترقی یافتہ جمہوری فلاحی ریاست بننے کا انتظار ،قصہ مختصر!!یہ سلسلہ انتظار نہ ختم ہونے والا سلسلہ طویل ہے ۔


ہمارے ارادے ،خواہشات ،عزائم اپنے نتائج دیکھنے کو ترستے ہیں اپنی خواہشات و نتائج کے درمیانی وقت جسے انتظار کہتے ہیں انتظار کی تعریف کیاہوسکتی ہے ؟۔حضرت واصف علی واصف  نے کہاتھا جس نے اچّھے وقت کا انتظار کیا اس پر اچّھا وقت آئے گا ۔اس تحریر میں انتظار کی مختلف جہتوں کو زیر بحث لاتے ہیں کہ انتظار کی کیفیت ہے کیا ؟ انتظار پر اتنی شاعری کیوں ہوئی ؟ تمام شعرا نے انتظار کوموضوع سخن کیوں بنایا ؟ بڑے بڑے صوفیا نے انتظار کوموضوع کیوں بنایا؟ جب کوئی شخص حالت انتظار میں ہوتا ہے اس کیفیت کوالفاظ میں بیان کیاجاسکتا ہے ؟یہ بھی ممکن ہے کہ زندگی کٹ جائے اور شب انتظار نہ کٹے ۔

ایک کتاب میں پڑھا:
انتظار کی کیفیت زندگی کی سب سے زیادہ تکلیف دہ کیفیتوں میں سے ایک ہوتی ہے اوریہ کیفیت شاعری کے عاشق کا مقدر ہے وہ ہمیشہ سے اپنے محبوب کے انتظار میں لگا بیٹھا ہے اور اس کا محبوب انتہائی درجے کا جفا پیشہ،خود غرض، بے وفا، وعدہ خلاف اوردھوکے باز ہے۔مرزا غالب کے بقول 
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا 
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا 
فیض احمد فیض نے محبوب کی بے اعتنائی ومحب کے دل کے انتظار کی ترجمانی یوں کی ہے
جانتا ہے کہ وہ نہ آئیں گے 
پھر بھی مصروف انتظار ہے دل 
جون ایلیا نے کہاتھا کہ انتظار کا بھی مزا ہے 
جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ 
وصل سے انتظار اچھا تھا 
بعض اوقات محبوب نے آنے کا وعدہ بھی نہیں کیا ہوتا اور آنے کا یقین بھی نہیں ہوتا مگر دل انتظار میں رہتا ہے فراق گورکھپوری درست ہی کہتے ہیں محبت میں امید نہ ہوتے ہوئے بھی ایک آس و یقین سا گمان رہتا ہے 
نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید 
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا 
علامہ اقبال نے انتظار کو ایک نئی توجیح دی ہے 
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں 
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ 
انتظار کی کیفیت بہت تکلیف دہ ہوتی ہے ایک ایک لمحہ زندگی پر بھاری ہوتا ہے انتظار قیامت سے کم نہیں ہے داغ دہلوی کے بقول 
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا 
تمام رات قیامت کا انتظار کیا 
پروین شاکر نے کہاتھا 
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی 
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے 
مجروح سلطانپوری نے کہاتھا کہ انتظار ایک کشمکش کا نام ہے مگر اس تذبذ ب کی کیفیت کا بھی اپنا ہی مزا ہے 
شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی 
کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا 
 عشق ومحبت اور محبوب کی قربت کے انتظار،انتظار کے دکھ کو ایک لازوال دکھ میں تبدیل کر کے اردو کی شاعری میں بے مثال شعروں کوجنم دیا ہے 
زہرا نگاہ نے کہاتھا 
اس امید پہ روز چراغ جلاتے ہیں 
آنے والے برسوں بعد بھی آتے ہیں 
فیض احمد فیض نے تو یہاں تک کہہ دیا تھاکہ 
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے 
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے 
ایک اور جگہ پر فیض کہتے ہیں
وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے 
شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے 
واصف علی واصف صاحب نے کہاتھا جو شخص حالت انتظار میں ہے وہ حالت سفر میں ہے اور جوحالت سفر میں ہے وہ حالت ارتقا میں ہے۔

مسافروں کے درمیان وجہ تعلق مسافرت ہے ۔جس کاانتظار رک گیا اس کاسفر رک گیا ۔وہ تعلق کی دنیاسے نکل گیا ۔انتظار تعلق کی ضمانت ہوتا ہے ۔انتظار تعلق سے بے نیاز نہیں ہونے دیتا ۔انتظار ہمیں مایوس نہیں ہونے دیتا ۔پس جس کا انتظار قائم ہے ،اس کاتعلق قائم ہے ،اس کاسفر اور ترقی ،طبق در طبق روبہ عروج ہے ۔واصف علی واصف اپنے مجموعہ مضامین دل دریاسمندر میں کہتے ہیں حسن عمل کا نتیجہ حسن انتظار ہے ۔

برے عمل کانتیجہ برا نہ بھی ہوتو برے نتیجہ کا انتظار ضرورہے ۔
واصف علی واصف تو روحانی سفر اور قرب الہی کے سفر کوانتظار سے تشبیح دیتے ہیں ان کے بقول زندگی موت کے انتظار کا دوسرانام ہے ۔
شب انتظار کی بات ہوں،غم برقرار کی بات ہوں 
کسی رازدار کی بات ہوں،بڑے افتخار کی بات ہوں 
ہم میں سے ہر کوئی زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے اور وہ کامیابی کے لئے انتظار کرتاہے ۔

مگر کامیاب وہی شخص ہوتا ہے جو محنت ،مستقل مزاجی سے صحیح سمت میں سفر کرتاہے جومحض بیٹھ کر انتظار کرتاہے وہ ساری زندگی بس انتظار ہی کرتاہے ۔اسے کامیابی کبھی نہیں مل سکتی ۔شیخ سعد ی شیرازی نے فرمایاتھاکہ آہستہ آہستہ مگرمسلسل چلنا کامیابی کی ضمانت ہے ۔جو لوگ محنت کرکے کامیابی کاانتظار کرتے ہیں کامیابی انہیں کا مقدر بنتی ہے اکثرناکام لوگوں سے سننے کوملتاہے کہ بس ہم انتظار کررہے ہیں اچھے وقت کا ،اچھاوقت آئے گاتو کام شروع کریں گے ان سے کوئی پوچھنے والا ہوکہ کون سے وقت کاانتظارکررہے ہو؟دراصل ایسے لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ صبح اٹھیں تو کامیابی ان کے دروازے پر دستک دے رہی ہو۔

کیف بھوپالی کے بقول :
کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا 
میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہوگا 
ایسے لوگ بس معجزوں کے انتظار میں زندگی گزار دیتے ہیں ۔یہ مسئلہ انفرادی نہیں اجتماعی بھی ہے ۔ اجتماعی و قومی سطح پر بھی ہمارا طرز عمل ایساہی ہے ۔ہم خود کچھ نہیں کرتے اور انتظار کرتے ہیں کہ کوئی دوسرا آئے اور ہمارے تمام مسائل حل کردے ۔

حکومت تمام مسائل حل کردے جو اپنی ذمہ داریاں بنتی ہیں وہ بھی ہم پوری نہیں کرتے مثلا محلے میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ہم میں سے ہر کوئی اپنے گھر کے سامنے کی صفائی نہیں کرے گا بلکہ گھر کاکوڑا کرکٹ اٹھاکر مقررہ جگہ پر پھینکنے کی بجائے گلی میں پھینک دے گا اور پھر شکوہ کناں ہوگا کہ بہت گندگی ہے حکومت صفائی وستھرائی کے کام پر توجہ نہیں دے رہی ۔

دوسروں پر ذمہ داری ڈالنا ایک طرح کا ہمارا اجتماعی مشغلہ بن چکاہے ۔انہیں وجوہات کی وجہ سے ہمارا معاشرہ مسائل کی آماجگاہ اور ملک طرح طرح کے بحرانوں کا شکار ہے ۔فیض احمد فیض کے بقول 
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر 
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں 
صرف ہمارے حکمران و سیاستدان ہی کرپشن میں لت پت نہیں کرپشن و ٹھگ بازی ،فراڈ ،جھوٹ۔

دھوکہ دہی ،مکروفریب ،لوٹ مار ہمارے معاشرے میں سرایت کرچکی ہے ۔دودھ بیچنے والا دودھ میں پانی ملاتا ہے ،سبزی بیچنے والا وزن کم تولتا ہے ،دوکاندار بھی ہیرا پھیرا سے باز نہیں آتا ،تاجر ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں ،مہنگائی میں اضافہ کی ایک وجہ چھوٹے دکانداروں کا من مرضی کاریٹ وزیادہ منافع کاحصول بھی ہے۔ ملاوٹ سے پاک کوئی چیز ملتی نہیں ہے ،کوئی بندہ اپنے لیول کی چوری وکرپشن سے باز نہیں آتا اور ہم انتظار کرتے ہیں ملک میں صاف ،شفاف ،ایماندار ،اہل قیادت کی اور کرپشن سے پاک نظام کی ۔

یہ سب کچھ تب ملے گا جب ہم خود کوٹھیک کریں گے ورنہ انتظار ہے بس کرتے رہیں انتظار ۔
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کرے مگر کچھ فرائض بھی شہریوں کے ذمہ ہوتے ہیں جن کوپورا کرنا ہر شہری کی آئینی واخلاقی ذمہ داری ہے مثلا ٹیکس دینا،قوانین کی پابندی کرنا ،دوسروں کی آزادی کااحترام کرنا،پرامن معاشرے کے قیام میں اپناکردار ادا کرنا،اپنے ذمہ کام پوری ایمانداری سے کرنا،اپنے علاقے کے اجتماعی کاموں میں حصہ لینا،صفائی ستھرائی ودیگر چیزوں کا خیال رکھنا ،مگر ہم میں سے کوئی یہ کام کرنے کوتیار نہیں اور سارا مسائل کاذمہ دار حکومت کوقرار دیکر خود سائیڈ پر ہوجاتے ہیں ۔

کرس میتھیوز نے اپنی کتاب ”جیک کینیڈی ،الیوسیو ہیرو“ میں لکھاہے کہ امریکہ کے 35 ویں صدر جان ایف کینیڈی نے کہاتھا”یہ مت پوچھو کہ ملک تمہارے لئے کیاکرسکتاہے ،یہ پوچھوکہ تم ملک کے لئے کیاکرسکتے ہو“ ۔ہم میں سے ہر کوئی شکوہ کناں ہوتا ہے کہ ملک نے اسے کیا دیا ہے تو یہ سوال خود سے بھی کرنا چاہئے کہ ہم نے پاکستان کوکیادیا ہے جس ملک نے ہمیں عزت واحترام سب کچھ دیا ہے ہم اسے کیا دے رہے ہیں ۔

وزیراعظم عمران خان نے دعوی کیاتھا کہ 2020 ملک میں خوشحالی وخوشخبریوں کاسال ہوگا ،نوکریاں آئیں گی ،معیشت بہتر ہوگی اب عوام کو انتظار ہے کہ یہ سب وعدے کب پورے ہونگے ؟ عوام تو داغ دہلوی کی زبان میں یہ کہتے ہیں 
آپ کا اعتبار کون کرے 
روز کا انتظار کون کرے 
حکومت کوئی بھی ہواس کی معاشی ٹیم ہمیشہ سے اچھا دکھاتی ہے عوام اس بہلاوے میں آکر اچھے کی امید لگالیتی ہے بعد میں جب نتائج وہ نہیں نکلتے تو مایوسی ہوتی ہے ۔

ملک میں تو ویسے بھی تبدیلی آچکی ہے شاید ہمیں ہی پتہ نہیں چلا کہ تبدیلی آگئی ہے منیر نیازی کے بقول 
یہ کیا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں 
توآکے بھی جاچکاہے ،میں انتظار میں ہوں 
 موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے لئے بلند وبانگ دعوے کئے اور امیدوں کے دپپ جلائے مثلاانسانی وسائل کی ترقی ،تعلیم اور صحت کے شعبہ جات کی اصلاح ،پولیس کے نظام کی بہتری ،بدعنوانی کا سدباب ،ماحولیاتی بہتری کے لئے کوششوں میں تیزی ،ایک کروڑ نوکریاں ،50لاکھ گھر اور روزگار کی فراہمی کے وعدے کئے تھے ۔

عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد بھی امیدتھی کہ وہ ان وعدوں کی تکمیل کریں گے مگر ”وہ وعدہ ہی کیاجووفا ہوجائے “ کی عملی صورت نظر آرہی ہے ۔
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے 
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے 
جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے 
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے 
ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب 
وہ شب ضرور سر کوئے یار گزری ہے
 وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا 
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے 
نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے 
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے 
چمن پہ غارت گلچیں سے جانے کیا گزری 
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے 
حکومت اگر کچھ نہیں کررہی تو ہمیں انتظار کی بجائے خود اپنی ذمہ داری کامظاہرہ فورا کرنا شروع کردینا چاہئے۔

اگر ہم دنیا میں اہم ایجادات کاجائزہ لیں تو وہ لوگوں کی انفرادی محنت وجہدمسلسل کا نتیجہ ہے مثلاپہیے ،چھاپے خانے ،سلائی مشین ،دخانی انجن ،بلب ،اینٹی بائیوٹک، ریڈیو،ٹی وی،موبائل ،کمپیوٹر ،انٹرنیٹ ،مصنوعی کھادسب لوگوں کی انفرادی محنت کا ثمر ہیں ۔اگر ہم معاشرے میں بہتری لانا چاہتے ہیں تو ہمیں کسی مسیحا کا انتظار کرنے کی بجائے خود اس تبدیلی کاآغاز اپنے آپ سے کرنا چاہئے ۔

ہمیں زندگی کو آئیڈیل کی بجائے حقیقت پسندی کے تناظر میں دیکھناچاہئے ہماری نوجوان نسل کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ حقیقی زندگی کو بھی فلموں ،ڈراموں یا ناول کی طرح ہی سمجھنا شروع ہوگئے ہیں کہ جس میں ایک ہیرو آتا ہے راتوں رات امیر ہوجاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ارب پتی بن جاتا ہے ۔یا ایک دن کے لئے وزیراعلی بن جاتا ہے مگر یہ صرف فلموں میں ممکن ہے عملی طور پر نہیں ۔

نوجوان نائیک فلم میں انیل کپور کی طرح وزیراعلی بننے چاہتے ہیں مگر اس کے لئے منصوبہ بندی وعلمی کاوشیں نہیں کرتے ۔اسی طرح فلموں ،ڈراموں میں اچانک زندگی کے کسی موڑ پر خوابوں کاشہزادہ یا نیلم پری مل جاتی ہے اور ہمارے نوجوان بھی اسی آئیڈلیسٹک اپروچ میں ایسی انہونی کے انتظار میں رہتے ہیں اور سول میٹ کے خواب دیکھتے رہتے ہیں اور اس میں اپناآپ بھی کھودیتے ہیں امید بہت اچھی چیز ہے مگر اس امید وخوابوں کے پورا ہونے کے انتظار میں اپناآپ نہیں بھول جانا چاہئے میر تقی میر نے کسی ترنگ میں کہاتھا 
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
 اور یہ سلسلہ انتظار یونہی چلتا رہتا ہے۔

اسی انتظار کواحمد فرازنے کچھ ایسے لکھا ہے 
نہ حریفِ جاں نہ شریکِ غم شبِ انتظار کوئی تو ہو
کسے بزمِ شوق میں لائیں ہم دلِ بے قرار کوئی تو ہو
کسے زندگی ہے عزیز اب کسے آرزوئے شبِ طرب
مگر اے نگارِ وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو
کہیں تارِ دامنِ گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے
کہ نشان فصلِ بہار کا سرِ شاخسار کوئی تو ہو
یہ اداس اداس سے بام و در، یہ اجاڑ اجاڑ سی رہگزر
چلو ہم نہیں نہ سہی مگر سرِ کوئے یار کوئی تو ہو
یہ سکونِ جاں کی گھڑی ڈھلے تو چراغِ دل ہی نہ بجھ چلے
وہ بلا سے ہو غمِ عشق یا غمِ روزگار کوئی تو ہو
سرِ مقتلِ شب آرزو، رہے کچھ تو عشق کی آبرو
جو نہیں عدو تو فراز تو کہ نصیب دار کوئی تو ہو
کسی نے ٹھیک ہی کہاتھا کہ ہم درحقیقت اس وقت خود کوبیوقوف بنارہے ہوتے ہیں جب ہم سوچتے ہیں کہ درست وقت ،درست مقام اور درست شخص کا انتظار کرکے ہی ہم کامیاب ہوسکتے ہیں مگر وہ موقع ہر وقت موجود ہوتا ہے جسے دریافت کرناہوتاہے کیونکہ وہ آپکو دریافت نہیں کرتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :