تصادم کون چاہتا ہے؟؟؟

جمعہ 29 نومبر 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

ہمارے صدرِ مملکت عارف علوی ٹھہرے ایک دانتوں کے ڈاکٹر اور ہمارا وزیراعظم ٹھہرا کرکٹر۔ ان بھولے بھالے حکمرانوں کی وجہ سے عوام کوآئے روز شہراقتدار میں کوئی نیا غیرذمہ دارانہ سین دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی ناتجربہ کاری اورامورسلطنت سے ناواقفیت کا فائدہ وہ تمام لوگ اٹھا رہے ہیں جوکہ وزراء اور مشیران کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ اس کی ایک مثال چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے توسیع کے نوٹیفکیشن معاملے میں کی جانی والی غلطیاں ہیں۔


 اگر وزیراعظم عمران خان کو پتانہیں تھا کہ طریقہ کار کیا ہے؟؟؟ تو کیا ان کے قانونی معاونین بھی لاعلم تھے؟؟؟ کہیں دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ کبھی قومی چورغلط میڈیکل رپورٹ دکھا کر بھاگ جاتا ہے تو کبھی وزیراعظم غلط نوٹیفکیشن پر دستخط کرکے پھنس جاتا ہے۔

(جاری ہے)

کہیں ایسا تو نہیں کہ دانستہ غلطیاں کرکے وزیراعظم عمران خان کے کھاتے میں ڈالی جارہی ہیں۔

آئے روزوفاقی کابینہ کی غلطیاں ملک کیلئے سیکورٹی رسک ہیں۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ ایک سادہ نوٹیفکیشن مروجہ قانونی طریقہ کار کے مطابق جاری کرناتھا۔ ہوا کچھ اس طرح کہ وزیراعظم نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔ نوٹیفیکیشن کے بعد معلوم یہ ہوا کہ یہ توصدر مملکت کا کام ہے تو صدر سے نوٹیفکیشن جاری کروا دیا پھر پتہ چلا کہ کابینہ کی ایڈوائس کے بغیرصدر یہ کام کر ہی نہیں سکتا تو صدارتی نوٹیفکیشن کو ہی کابینہ کے گیارہ وزیروں سے دستخط کروا لیا۔

پھرسپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد انہیں پتہ چلاکہ کابینہ کی منظوری کے بعد دوبارہ یہ نوٹیفکیشن صدر نے جاری کرنا تھا۔ 12 ستمبر کوعاصمہ شیرازی کے ساتھ انٹرویو میں صدر مملکت نے فرمایا تھا کہ نوٹیفکیشن ابھی ان تک پہنچا ہی نہیں کہ وہ سائن کریں، جبکہ نوٹیفکیشن پر 19 اگست کی تاریخ درج ہے-جو حکومت سب سے طاقتور عہدے کی توسیع کا سادہ سا نوٹیفکیشن جاری کرنے میں ناکام رہے اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔

ان غلطیوں کے دفاع میں اترنے والے حکمران جماعت کے کارکنان نے سارا زور سپریم کورٹ پرتنقید میں صرف کیا۔ اگر چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ اس معاملے کا ازخود نوٹس نہ لیتے تو بھی آرمی چیف کی پہلی معیاد کچھ دن بعد ختم ہونے کے ساتھ دوسری معیاد کیلئے تقرری بھی مستقل کالعدم ہوجانی تھی تو اس صورت میں بھی بحران ہی جنم لیتا۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان کا جج صاحبان سے جو مکالمہ ہوا ہے،اس میں اٹارنی جنرل صاحب عدالت عظمیٰ کو مطمئن کرنے سے قاصر رہے۔

وہ نہ تو یہ بتاسکے کہ حکومت نے کس قانون کے تحت آرمی چیف کے عہدے کی معیاد میں توسیع کی ہے؟؟؟اور نہ یہ بتا سکے کہ حکومت کے پاس توسیع کا اختیار ہے یا نہیں؟؟؟ اور اگر ہے تو کس کے پاس ہے؟؟؟ اور کابینہ کی جانب سے توسیع کا جومسودہ عدالت میں پیش کیا کیا گیا,اس میں کئی غلطیاں نکل آئیں۔ یہ جو کچھ بھی ہوا, جیسے بھی ہوا, اس سے ایک بات توطے ہوگء کہ سپریم کورٹ نے حکومت کی ناتجربہ کاری اور نااہلی پر مہرثبت کردی ہے۔

حکومت کویہ فرق ہی نہیں پتا تھا کہ توسیع اور تقرری میں کیا فرق ہے؟؟؟
معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ کیا سپریم کورٹ اس میں مداخلت کا آئینی اختیاررکھتی ہے یا ایسا کرکے اختیارات سے تجاوز کیا گیا ہے؟؟؟اور پھر اگرسماعت ناگزیر تھی تومعاملے کی حساسیت کے پیشِ نظر بندکمرے میں ہوتی یا مقصد صرف جگ ہنسائی تھا؟؟؟پرنٹ, الیکٹرانک اورسوشل میڈیا کوریج کی اجازت دی گئی, تو دشمن ملک بھارت کو بھی شادیانے بجانے کا موقع مل گیا۔

اورآخرمیں عدالت عظمیٰ نے جوفیصلہ دیا, وہ پہلے روز ہی دیاجاسکتا تھا۔ جج صاحبان سرکاری نوٹیفکیشن کی غلطیوں کی نشاندہی کرکے حکومت کی ازخود رہنمائی کرکے معاملہ نمٹاسکتے تھے۔ خود سپریم کورٹ نے آرمی چیف کوجو6 ماہ کی توسیع دی،وہ کس قانون کے تحت ہے؟؟؟ حکومت کو سپہ سالار کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے بذریعہ پارلیمان ضروری قانون سازی کیلیے 6 ماہ کاوقت دیاگیا ہے۔

حکومت نے اگست میں ہی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کافیصلہ کرلیا تھا۔توبہترہوتاکہ اسی وقت آرمی ایکٹ پرنظرثانی کرلی جاتی۔
 چنانچہ اب حکومت کو آرٹیکل243 اور ملٹری ریگولیشن 255 میں ترمیم کرکے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے متعلق پارلیمان سے ایک بل پاس کروانا ہوگا۔ جس کیلیے سادہ اکثریت درکار ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس سلسلے میں حکومت سے کتنا تعاون کرتی ہیں؟؟؟ اگرقومی اسمبلی سے حکومت بل پاس کروا لیتی ہے تو سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی اکثریت کے باعث حکومت کو دوسری جماعتوں کا تعاون درکار ہوگا۔

اگر بل سینٹ میں مسترد ہوا تو قومی اسمبلی دوبارہ پاس کرسکتی ہے۔ اگر دوسری مرتبہ بھی سینیٹ مستردکردے تو قومی اسمبلی تیسری مرتبہ پاس کرکے سینیٹ میں بھیج سکتی ہے تو تیسری مرتبہ سینیٹ کیلیے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اسے مسترد کرسکے۔ اس کے علاوہ بل پاس نہ ہونے کی صورت میں صدارتی آرڈیننس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ اس تمام ترصورتحال سے نمٹنے کیلیے حکومت کے پاس 28 مئی2020تک کا وقت ہے۔

یہ جو صاحب درخواست گزارآرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف عدالت عظمیٰ درخواست لے کر گئے, انہوں نے آرمی چیف کی پہلی معیاد کے اختتام کے عین قریب ہی کیوں ایسا کیا؟؟؟ درخواست گزارریاض حنیف راہی متعدد بار عدالتوں میں غیرضروری درخواستیں دائر کرنے اور بعد ازاں پیروی نہ کرکے عدالتوں کا وقت ضائع کرنے پر قید اور جرمانے کی سزا بھگت چکا ہے۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف بھی موصوف نے پرانی روش کے تحت بروز سوموار درخواست دائر کی اور پھراگلے روزمنگل کودرخواست واپس لینے کی استدعا کردی۔
جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے معاملے کا ازخود نوٹس لے لیا۔ سماعت کے دوران ریاض حنیف راہی ایڈووکیٹ بار بار درخواست واپس کرنے کی استدعا کرتا رہا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ شخص کون ہے؟؟؟ اس نے کس کے کہنے پر درخواست دائرکی؟؟؟ اور پھر کیوں درخواست واپس لینے کی استدعا کی؟؟؟ اس معاملے کی مکمل تحقیقات ضرورہونی چاہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :