احیائے اتحاد امت مسلمہ!!!

پیر 23 دسمبر 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

عصرِ حاضر میں سیاسی اور اقتصادی میدان میں کامیابی ہی ریاستی استحکام کی ضامن ہے۔ لہذٰا بڑی طاقتوں میں تجارتی اجاراداری کی جنگ شدت اختیار کرچکی ہے۔ کسی بھی ملک پر دباؤ ڈالنے کیلئے معاشی ہتھکنڈوں کی اہمیت فوجی کارروائی سے زیادہ اہمیت ااختیارکرچکی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو امت مسلمہ ابھی تک سیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے اقتصادی ہتھیار کو مئوثر طریقے سے استعمال کرنے میں ناکام ہے۔

اس کااہم سبب مسلم ممالک کے درمیان اتفاق و اتحاد کی شدید کمی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ "اوآئی سی " مکمل طورپر غیر مئوثر ہوچکی ہے۔ اقتصادی میدان میں " اوآئی سی " کے ممبرممالک کی کوئی مشترکہ حکمتِ عملی سامنے نہیں آسکی ہے۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اکثر مسلم ممالک کے کاروباری اور تجارتی روابط ان غیرمسلم ممالک کے ساتھ جڑچکے ہیں،جن سے سیاسی طورپر پر امت مسلمہ کو نقصان اٹھانا پڑرہاہے۔

(جاری ہے)

لہذٰا امت مسلمہ کو اپنی تجارتی،کاروباری اور اقتصادی پالیسیوں پر نظر ثانی کرناہوگی۔
 سعودی عرب جوکہ خودکو امت مسلمہ کا قائد سمجھتا ہے, وہ بھارت جیسے ملک سے معاشی تعلقات کو بڑھارہاہے۔ کیا سعودی عرب کوخبر نہیں کہ گزشتہ پانچ ماہ کے دوران مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمان کس قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں؟؟؟ اوربھارت وہاں آبادی کا تناسب تبدیل کرنیکا اسرائیلی ماڈل آزماتے ہوئے کشمیری عوام سیان کی سرزمین چھین لیناچاہتاہے اورتاریخ انسانی کی سب سے نسل کشی متوقع ہے۔

 کیا سعودی عرب کواحساس نہیں کہ ہندو مہاسبھائی قیادت " ہند صرف ہندووں کیلئے" کی پالیسی پر گامزن ہے۔ جس کے تحت بھارتی مسلمانوں کی شہریت چھیننے کیلئے بھارتی قانون شہریت کوبدل دیا گیا ہے۔ اس کیخلاف پورے بھارت میں مسلم کمیونٹی سراپائے احتجاج ہے۔ذراسوچیے!!! یہ کروڑوں مسلمان جو کشمیر اور بھارت کے دیگر علاقوں میں بستے ہیں،فریاد لے کر کس کے در پر جائیں؟؟؟ جبکہ ان کا مستقبل اورزندگی خطرے میں پڑچکی ہے؟؟؟
 کہاں ہے " اوآئی سی "؟؟؟ کہاں ہے امت مسلمہ کا قائد سعودی عرب؟؟؟ کہاں ہے متحدہ عرب امارات؟؟؟حالت یہ ہے کہ اگر ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور ترک صدر رجب طیب اردوگان " کوالالمپور سمٹ " کے ذریعے امت مسلمہ کے ازسرنو اتحاد ویگانگت اور سیاسی و معاشی مفادات کے تحفظ کیلئے کچھ اقدامات کا سوچتے ہیں توامت مسلمہ کا یہ ہی قائد سعودی عرب اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتا ہے۔

سعودی حکومت نے پاکستان کے وزیراعظم کو باقاعدہ طورپر ریاض بلاکر" کوالالمپور سمٹ " میں شرکت نہ کرنیکی یقین دہانی حاصل کرلی۔ اور ہم اپنے غریب مزدوروں کی خاطرخاموش رہے۔ یہ معاملہ تو دب ہی جاتا اور کسی کو خبر ہی نہ ہوتی, اگر ترک صدر رجب طیب اردگان سعودی عرب کے پاکستان کیساتھ نامناسب رویے پرتحفظات کا اظہارنہ کرتے۔
اگرچہ ترک صدررجب طیب اردگان اور ملائیشین وزیراعظم مہاتیرمحمد پاکستان کی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے درگزرکرگئے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود یہ نقصان ضرورہواہے کہ ہم " کوالالمپورسمٹ " میں کوئی کردارادا نہیں کرپائے اورنہ ہی "کوالالمپورسمٹ " کے فیصلوں اور اقدامات سے کوئی فائدہ اٹھا پائیں گے جوکہ خود ہمارے قومی مفادات کے منافی ہے۔ ترکی اور ملائیشیا اگر ہماری مجبوری کا ادراک کرتے ہوئے"مسئلہ کشمیر " پرہماری حمایت جاری رکھیں گے تویہ ان کا ہم پراحسانِ عظیم ہوگا۔

سعودی عرب کوبڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیعہ سنی اختلافات کوایک طرف رکھتے ہوئے "ایران " سے تعلقات معمول پرلانے چاہییں اوراسی طرح سعودی عرب کوقطرکیساتھ باہمی تنازعات حل کرلینے چاہییں تاکہ مستقبل میں " اتحادِامت مسلمہ "کیلئے" کوالالمپورسمٹ " جیسے شاندارمواقع سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات کوبھی اپنے مئوقف میں تبدیلی لانی چاہیے کیونکہ " اتحادامت مسلمہ " کیلئے یہ ناگزیرہوچکا ہے۔

"کوالالمپورسمٹ " میں ہونیوالے فیصلوں کے مطابق سمٹ میں شریک ممالک نیزبردست اقتصادی فیصلے کیے ہیں جن میں ڈالرکی تجارتی اجاراداری ختم کر کیلئے" گولڈ اوربارٹرسسٹم کے ذریعے تجارت اور ڈالرکے مقابلے کیلئے ایک مشترکہ کرنسی کیاجراء کی تجاویز قابلِ ستائش اورقابلِ تقلید ہیں۔ اگر ایران،ترکی،ملائیشیا اورقطراقتصادی نوعیت کا ایک مئوثر مسلم فورم قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تویہ یقیناً " اوآئی سی " سے کہیں زیادہ فعال اورسودمند ثابت ہوگا۔

 
عرب ممالک کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ مسلم ممالک کواپنے کاروباری اور تجارتی اثرورسوخ سے فائدہ اٹھانے کیلئے عالمی طاقتوں کی اقتصادی اجاراداری ختم کرنا ہوگی۔ اوریہ قطعاً ضروری نہیں کہ اس کیلئے صرف "اوآئی سی " کوہی بنیادی فورم بنایا جائے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اقوام متحدہ کی موجودگی میں بھی " یورپین یونین،نیٹو،دولتِ مشترکہ برطانیہ،شنگھائی تعاون تنظیم،سارک،جی فائیو اور جی ایٹ جیسے مختلف نوعیت کے فورمزموجود ہیں جومختلف مقاصد کے حصول کیلئے وقتاً فوقتاً بنائے گئے اوریہ کافی کامیاب اورمئوثرفورمزسمجھے جاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :