ارطغرل غازی سیزن 2, منگول ٹیرے!!!

جمعرات 14 مئی 2020

Ayesha Noor

عائشہ نور

ارطغرل غازی کون تھے؟؟؟ ایک اوغوز ترک خانہ بدوش قبیلے کائی کے سردار سلیمان شاہ کے بیٹے۔ ان کا دشمن کون تھا؟؟؟ اس زمانے کی سپرپاور منگول سلطنت کے حکمران اوکتائی خان کی فوج کا کمانڈر نویان!!! وحشی منگول جو اپنی عددی اکثریت،حربی قوت اور ظالمانہ نظام چین جیسے ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکرچکے تھے۔ وہ ارطغرل غازی کو کیوں رکاوٹ سمجھتے تھے؟؟؟ جن کے پاس اب نہ فوج تھی نہ سامانِ حرب تھا نہ مال وزر!!! مگر پھر وحشی منگول کائی قبیلے پر حملہ آور ہوئے اور قتل وغارت کرکے لوگوں کو خوفزدہ کیا کیونکہ دشمن پر اپنی ہیبت طاری کرنا مدمقابل کی نفسیاتی شکست کی بنیاد ثابت ہوتا ہے -
 مزید برآں یہ کہ ان کے تجارتی معاہدوں کو ناکام بنادیا۔

گویا معاشی میدان میں دشمن پر تجارتی برتری کو ہر زمانے میں ایک تسلیم شدہ اور مئوثرکامیابی سمجھا جاتا رہاہے۔

(جاری ہے)

مگر آج کے مسلم حکمران الٹ پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ بھارت نے ایک متنازعہ " شہریت قانون " بنا کر بھارتی مسلمانوں سے شہری حقوق چھیننے کی تیاری کرلی ہے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کوبھی مکمل طورپر اپنے اندر جذب کرنے کیلیے آرٹیکل 370 اور 35A ختم کرچکا ہے اور اگلے مرحلے میں آبادی کا تناسب بدلنا چاہتا ہے, مگر اس سب کچھ کے باوجود اگر بھارت مسلم ممالک کا بڑا تجارتی شراکت دارہے تو یقیناً مسلم حکمرانوں کی تجارتی پالیسیاں قابل تنقید اور باعثِ تشویش ہیں۔

ارطغرل غازی اور ان کے مٹھی بھر جانثاروں سے ایسا کیاخطرہ تھا۔ جس نے دشمن ارطغرل غازی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلاکر ان کی کردار کشی کرنے اور انہیں " غدار" ثابت کرکے اپنوں کے ہاتھوں ہی قتل کروانے کی کوشش کی۔ اس کی واحد وجہ ارطغرل غازی کی قائدانہ صلاحیت اور جنگی قابلیت و مہارت تھی۔ کیونکہ دشمن جانتاتھاکہ ااگرترک ارطغرل غازی کی قیادت میں متحد ہوگئے تو اپنادفاع کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

چنانچہ تاریخی واقعات کی روشنی میں ثابت ہوا کہ لشکرِ کفار اپنی بھرپورطاقت کے باوجود اگر کسی چیز سے خوفزدہ ہوتے ہیں تو وہ ہے " اہل قیادت "!!! کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مٹھی بھر مسلمان اپنی تمام تر حربی اور معاشی کمزوریوں کے باوجود اگر کسی بہترین قائد کی زیرِ قیادت متحد ہوجائیں تو " چنگیزیت " بھی ان کے جذبہ ایمانی کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ عالمِ اسلام کے کئی جری سپوتوں کی کردار کشی کرکے ان کے خلاف جھوٹے الزامات عائدکرکے اپنوں ہی کو ورغلا کر اندرونی غداروں کی مددسے انہیں قتل کروانا دشمن کی ایک خطرناک چال ثابت ہوتی ہے۔ آج کے دور میں جبکہ پرنٹ, الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو بیک وقت پروپیگنڈہ مہم کیلیے استعمال کیاجاتا ہے۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کوسچ ثابت کرنا اور کسی کی بے بنیاد کردار کشی کرنا ماضی کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہے۔

ہمیں کیا خبر کہ ذرائع ابلاغ سے وابستہ کون سا فرد یا ادارہ؟ اور کون سا قاضی اور کون سی عدالت ضمیر فروش ہو ؟ اور کون سا امیر بکاؤیا عوامی نمائندہ بدعنوان ہو؟؟؟
جب کائی قبیلے نے حلب سے واپس اناطولیہ ہجرت کا خطرناک فیصلہ کیاتو یقیناً ان کا مقصد اناطولیہ پر منگول یلغار کو روکنا تھا۔ مگرجب ارطغرل غازی نے اہلت کی بجائے بازنطینی سرحد کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا تو ان کا مقصد ایک مضبوط اسلامی ریاست کا قیام تھا۔

کائی قبیلے نے خانہ بدوشی کی زندگی میں جن مشکلات و مصائب کا سامنا کیا, اس کی بڑی وجہ ان کے پاس اپنی سرزمین کا نہ ہونا تھا, جسے وہ اپنا وطن بناسکتے۔ وہ جس سلجوکی ریاست کے وفادار تھے, اس کیلیے بھی بے پناہ قربانیوں کے باوجود وہ کسی ایسے خطہ ارضی سے محروم تھے, جسے جہاں وہ مستقل بستے۔ چنانچہ یہ ہی وجہ تھی کہ اپنی نئی ریاست کے قیام کیلیے ارطغرل غازی اور ان کے جانثاروں نے اپنی زندگیاں وقف کردیں حالانکہ ارطغرل غازی کے اپنے بھائی بھی ایک وقت پر ان کا ساتھ چھوڑگئے۔

لہٰذااپنی سرزمین, اپنے وطن کا حصول اور اپنی آزادی کا تحفظ بے پناہ اہمیت کا حامل ہوتاہے۔ اسی کی خاطر کائی قبیلے نے ایک مشکل , طویل اور کٹھن جدوجہد کی اور جانی قربانیاں دیں۔ یاد رہے کہ ہمارا پیارا وطن پاکستان بھی ایک طویل اورصبر آزما جدوجہد اور ان گنت جانی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے, چنانچہ اپنے وطن, اپنی مٹی, اس پاک سرزمین اور آزادی کی قدر کیجیئے۔

قیام پاکستان کے بعد ایک اور طویل, صبر آزما جدوجہد ہماری راہ دیکھ رہی ہے اور وہ ہے تکمیلِ پاکستان کی جدوجہد,جس کیلیے انتھک محنت اور کاوشوں کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جب ہم داخلی طورپر سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کرلیں گے, تبھی اپنے خارجی دشمنوں سے بہتر طورپر نمٹ سکیں گے۔
اگرچہ ہم اپنے ماضی کا جائزہ لیں تو ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ کیا یہ کم ہے کہ مسلمانوں نے اقلیت میں ہونے کے باوجود ہندوستان پر ہزار سال تک حکومت کی۔

تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے عظیم مسلم حکمرانوں سلطان علاوالدین خلجی اور سلطان غیاث الدین بلبن نے بھی منگول لٹیروں کو ناکوں چنے چبھوائے۔ سلطان غیاث الدین بلبن نے منگولوں جیسے خونخوار لشکر کو کئی سال پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی سرحدوں سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔ ان کے بہترین سپہ سالاروں محمد اور بغرہ نے منگولوں سے 1286میں زبردست جنگ لڑ کر شکست دی اور گورنر محمد خود شہادت سے سرفراز ہوا۔

سلطان علاوالدین خلجی نے 1297 میں منگولوں کو زبردست شکست دی۔۔اس کے دو سپہ سالار ظفر خان اور الغ خان تو ایسے تھے جن سے منگول بھی کانپتے تھے۔1299 میں ظفر خان نے حملہ آور منگول فوج کو عبرتناک شکست دی تھی۔۔ کہتے ہیں کہ اگر کسی منگول کا گھوڑا کہیں پانی نہیں پیتا تھا تو وہ اسے جھڑک کر کہتا تھا کیا تو نے ظفر خان کو دیکھ لیا جو ڈر کے مارے پانی نہیں پی رہا؟
1303ء میں خلجی کی قیادت میں فوج کی کمان ملک کافور نے سنبھالی اور ہزاروں منگولوں کو جہنم واصل کیا جبکہ 1305ء میں سلطان کے زیر سایہ ملک نائیک کی کمان میں آٹھ ہزار منگولوں کو جہنم رسید کرتے ہوئے ہندوستان پر قابض ہونے سے بچایاگیا۔ افسوس کہ نئی نسل اپنے عظیم اسلاف کے متعلق بہت کم جانتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :