
مقدمہ جونا گڑھ اور حیدرآباد دکن !!!
اتوار 11 اکتوبر 2020

عائشہ نور
3 جون کے منصوبے کی روسے 15اگست کو نواب آف مہابت خان جی سوم کو خط لکھا گیا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں ؟؟؟ ریاست جوناگڑھ کی 80%آبادی ہندوتھی مگرریاست جوناگڑھ کےمسلم نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ۔
(جاری ہے)
ہوگیا۔ جوناگڑھ کا مقدمہ اقوامِ متحدہ میں لےجایا گیا جواب تک اقوام متحدہ کےریکارڈ میں موجود ہے ۔
نظام حیدرآباد دکن "میرعثمان علی خان آصف جاہ ہفتم "نے ریاست کی " آزاد اورخودمختار" حثیت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا , وہ بھارت سے " معاہدہ امتناعی " بھی کرچکےتھے اور ریاست کی داخلی خودمختاری پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرناچاہتےتھے۔ ریاست حیدرآباددکن کی 85% آبادی ہندو تھی مگر مسلم اقلیتی مسلم خاندان کی حکومت پرعوام کا اعتمادموجود تھا اور نظام حیدرآباد دکن مسلم وغیرمسلم رعایا میں برابرقدرومنزلت رکھتےتھے۔ چنانچہ بھارت سے الحاق نہ کرنے کےریاستی فیصلے کوعوام نے قبول کرلیا تھا۔ مگربھارتی وزیرداخلہ سردارولبھائی پٹیل نےاس صورتحال کو قبول نہ کیا 13اور ستمبر 1948 کو ریاست پر حملہ کروادیا اور پانچ روزہ آپریشن " پولو " (جسےپولیس آپریشن کانام دیاجاتا ہےحالانکہ یہ فوجی کارروائی تھی) کے نتیجے میں 18 ستمبر 1948 کو نظام حیدرآباد کی فوج کو شکست دے کر ریاست پر قابض ہوگیا ۔ حملہ آور بھارتی فوج کی تعداد 36ہزار جبکہ نظام کی فوج کی کل تعداد26ہزارتھی , جس میں سے محض 6 ہزارباقاعدہ تربیت یافتہ اہلکارتھے ۔ بھارتی قبضےکے بعد یہ تنازع " اقوام متحدہ " میں بھی لے جایاگیا اور ریاست حیدرآباد دکن کا مقدمہ اقوامِ متحدہ کے ریکارڈ پراب تک موجود ہے۔ ریاست پرقابض ہونےکےبعد نظام حیدرآباد کو ہی بھارت کی طرف سے ریاست کا گورنرمقررکردیا گیا اور یوں یہ معاملہ دب گیا اور دسمبر 1949 کو نظام حیدرآباد دکن نے بھارت سے الحاق منظورکرناپڑا اور بالآخر یہ ریاست 26 جنوری 1950 کو بھارت میں ضم ہوگئ ۔ ریاست حیدرآباد دکن کے خلاف مسلح جارحیت کے دوران ریاست میں کتنی قتل و غارت ہوئی , اس کا اندازہ لگانے کےلیے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے سندرلال کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی ٹیم مقرر کی , جس کی رپورٹ بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی بجائے دبادی گئ ۔ یہ رپورٹ اب 65 برس بعد منظر عام پر آچکی ہے۔ جس میں انکشاف گیا ہے کہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے ایک سال بعد وسط بھارت میں ہونے والے ایک قتل عام میں ہزاروں افراد کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا - بھارتی فوج کے ریاست حیدرآباد دکن پرقابض ہونےکےموقع پر آگ لگانے، لوٹ مار، قتلِ عام اور جنسی زیادتیوں کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔ سندرلال تحقیقاتی ٹیم میں مختلف مذاہب کے افراد شامل تھےکہ جوحیدر آباد دکن گئے اور تحقیقات کیں۔ اس ٹیم نے ریاست میں واقع کئی دیہات کا دورہ کیا، لیکن ان کی تشکیل کردہ رپورٹ دبادی گئ ۔ یہ رپورٹ اس وقت بھارتی دارالحکومت دہلی کے نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری میں رکھی گئی ہے۔ سندر لال رپورٹ کے مطابق ٹھوس ثبوت تھے کہ کئی موقعوں پر بھارتی فوج اور پولیس اہلکاروں نے مسلمانوں کے خلاف کی اور زیادتی میں حصہ لیا۔ ریاستی دوروں میں ہمیں معلوم ہوا کہ کئی جگہوں پر فوجیوں نے مسلمانوں کی دکانیں اور مکانوں کو لوٹنے اور تباہ کرنے کے لیے ہندووں کی حوصلہ افزائی کی گئ ۔ بعض موقعوں پر فوج نے خود مسلمانوں کو قتل کیا کئی دیہات اور قصبوں میں بھارتی فوج نے مسلمان مردوں کو مکانوں سے نکالا اور اور ان کو قتل کیا۔ اس خفیہ سندر لال رپورٹ میں ہندووں کی جانب سے کی گئی بہیمانہ کارروائیوں کا احوال بھی درج کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ہم نے کنوﺅں میں لاشیں پڑی دیکھیں۔ کئی جگہوں پر مسلمانوں کی لاشوں کو آگ لگائی گئی اور ہم جلی ہوئی لاشیں اور کھوپڑیاں ہم دیکھ سکتے تھے۔ سندر لال رپورٹ کے مطابق اس دوران 27 سے 40 ہزار افراد کو قتل کیا گیا۔ اس رپورٹ کے شائع نہ کرنے کے حوالے سے کوئی سرکاری موقف کبھی نہیں دیا گیا ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کی متنازع حثیت کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پرپہنچی ہوں کہ تحریک آزادی کشمیر کےدوران کیےگئےکئ اقدامات نے ریاست جموں و کشمیر کا مقدمہ کمزورکیااور بھارت کو نہ صرف جدوجہد آزادی کوبدنام کرنےبلکہ اپنا غیر قانونی قبضہ مستحکم کرنے جواز ملا اور بدقسمت کشمیری عوام 73 سالوں پر محیط تحریک آزادی کشمیر کےلیے کم و بیش ایک لاکھ انسانی جانوں کی قربانی , مالی نقصانات اور خواتین کی بے حرمتی کے ہزار ہا واقعات کے باوجود بھی منزلِ مقصود کو نہ پہنچ سکی ۔ چنانچہ سب سے پہلے ہمیں اپنی کچھ تاریخی کوتاہیوں کو تسلیم کرنا ہوگا تاکہ بدقسمت کشمیری عوام بھی آزادی کا سورج طلوع ہوتا دیکھ سکیں اور انہیں بھی جنت نظر وادئ کشمیر میں سکون سے جینا نصیب ہوسکے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پٹھان قبائلی لشکر کے ریاست پر حملے کو اپنی فوج کشمیر میں اتارنے کا جواز بنایا ۔ تو بھارت بتائے کہ اس نے خود کیوں ریاست جوناگڑھ اور ریاست حیدرآباد دکن پر فوج کشی کی ؟ اگر بھارت کی طرف سے اس بنیاد پر جونا گڑھ اور حیدرآباد دکن پر فوج کشی جائز تھی کہ وہاں کی اکثریت ہندو تھی تو پھر کشمیر پر قبائلی لشکر پر اتنا واویلا کیوں ؟ اگر بھارت یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کے فیصلہ عارضی الحاق کی بنیاد پر بھارت نے کشمیر میں فوج اتاری تو گویا مطلب یہ ہوا کہ ریاستی حکمران کے فیصلے کی بنیاد پر بھارتی اقدام جائز تھا۔ تو پھر یقیناً پاکستان کو بھی یہ سوال اٹھانے کا حق ہے کہ ریاست جوناگڑھ کے نواب جبکہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرچکے تھے تو پھر پاکستان کا بھی پورا حق بنتا تھا کہ وہ جوناگڑھ میں فوج اتاردیتا مگر ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ اگر بھارت مہاراجہ کشمیر کی طرف سے عارضی الحاق کو کشمیر پر دعوے کی بنیاد بناتا ہے تو پھر پاکستان بھی نواب آف جونا گڑھ کے فیصلہ الحاق پاکستان کو بنیاد بنا کر جوناگڑھ پر بھارتی قبضے کو آج بھی چیلنج کر سکتاہے۔ اگر بھارت کے نزدیک ریاستی حکمران کے فیصلے کی کشمیر کےمعاملےپراتنی اہمیت ہے تو پھر حیدرآباد دکن کے معاملے پر کیوں نہیں؟ بھارت بتائے کہ نظام حیدرآباد جب بھارت کے ساتھ معاہدہ امتناع کرچکے تھے اور ریاست کی اندرونی خود مختاری برقرار رکھنا چاہتے تھے بلکہ زیادہ واضح لفظوں میں بھارت میں ضم نہیں ہوناچاہتے تھے تو پھر بھارت نے ریاست حیدرآباد دکن پر فوج کشی کیوں کی ؟ وہ بھارت جوکہ ہر عالمی فورم پر پٹھان قبائل کے کشمیر پر حملے پر اتنا واویلا مچاتا ہے , وہ بھارت جوناگڑھ اور حیدرآباد دکن پر فوج کشی کا جواز فراہم کرے ۔ کیونکہ وہاں نہ تو قبائلی لشکر داخل ہوا تھا نہ پاکستانی فوج تو پھر کشت و خون کیوں ؟ اگر بھارت کے دعوے کے مطابق حیدرآباد دکن اور جوناگڑھ ہندو اکثریتی ریاستیں ہونے کی وجہ سے بھارت کا حق تھیں تو پھر ریاست جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی ریاست پر پاکستان کا حق تسلیم کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ بھارت ریاست جموں و کشمیر پر قبائلی حملے میں کشت و خون کا الزام لگاتاہے تو پھر بھارت پر بھی حیدرآباد دکن کے" آپریشن پولو " کے دوران ہوئے کشت و خون کا جواب دینا لازم ہے ۔ بھارت بتائے کہ سندر لال رپورٹ کیوں دبادی گئ ؟ کیوں یہ رپورٹ بھارتی پارلیمان میں پیش نہیں گئ ؟ یہ وہ سب سوالات ہیں جو ہر عالمی فورم پر جہاں بھی مسئلہ کشمیر زیرِ بحث آئے , بھارت سے ضرور پوچھے جانے چاہیں ۔ مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ مسئلہ جوناگڑھ اور مسئلہ حیدرآباد دکن بھی اہمیت کے حامل ہیں ۔ بھارت ہمیشہ گلگت بلتستان پر اپنا دعویٰ کرتا ہے تو پاکستان بھی جوناگڑھ کا دعویدار بن سکتاہے ۔ چنانچہ ریاست حیدرآباد دکن اور ریاست جوناگڑھ کا مقدمہ دب جانا پاکستان کی ایک بڑی سفارتی غلطی سمجھی جاسکتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عائشہ نور کے کالمز
-
میرا حجاب ، اللہ کی مرضی!!!
منگل 15 فروری 2022
-
غلام گردش!!!
بدھ 2 فروری 2022
-
صدائے کشمیر
اتوار 23 جنوری 2022
-
میرا سرمایہ ، میری اردو!!!
بدھ 12 جنوری 2022
-
اختیارات کی مقامی سطح پر منتقلی
بدھ 29 دسمبر 2021
-
ثقافتی یلغار
پیر 20 دسمبر 2021
-
"سری لنکا ہم شرمندہ ہیں"
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
چالاکیاں !!!
ہفتہ 27 نومبر 2021
عائشہ نور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.