زہریلے !!!

جمعرات 9 ستمبر 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

کابل کے شمال میں 150 کلومیٹر دور   3610 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل " وادی "پنجشیر" یعنی "پانچ شیروں کی وادی" واقع ہے جوکہ کوہ ہندوکش میں واقع ہے۔   پنجشیر پر کنٹرول کےلیے"شمالی اتحاد" اور افغان طالبان کے مابین کشمکش کی تاریخ کافی پرانی ہے۔  اگردیکھاجائے توماضی میں پنجشیر اپنے محل و وقوع کی وجہ سے ناقابل تسخیر علاقہ مانا جاتا تھا کیونکہ شمالی اتحاد کے کمانڈراحمد مسعود شاہ نےیہ علاقہ روس اور طالبان سے محفوظ رکھا تھا۔

ستمبر 2001 میں احمد شاہ مسعود کے خودکش دھماکے میں ہلاک ہونے کے بعد  اس علاقے کی بھاگ دوڑ ان کے بیٹے احمد مسعود کے حصے میں آئی ، جس کی سپاہ کی تعداد 3ہزار تھی جن میں سےزیادہ تر ازبک یا تاجک ہیں اوروہ 20 سال سے غیرفعال بھی تھے ، گویا طاقت کا توازن واضح طورپر طالبان کے حق میں تھا اورخود مغربی میڈیا میں بھی یہ بات تسلیم کی گئی کہ شمالی اتحاد کی مزاحمت میں کامیابی کا کوئی امکان موجود نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

ایسا لگتا تھا کہ احمد شاہ اور طالبان کے درمیان  مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔ مگرمذاکرات کی ناکامی کے بعد افغان طالبان کی وادی پنجشیر کی طرف کامیاب پیش قدمی دیکھنے میں آئی ، وادی کافی دنوں سے ان کے محاصرے میں تھی اور احمد شاہ نے اسے ایک صوبے کی لڑائی کے بجائے "تمام" افغانستان کی لڑائی قرار دے کر لڑنے کا عندیہ دے دیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ شمالی اتحاد کو اتنی ہمت و جرات کہاں سے ملی ؟ اس کا سب سے معقول جواب یہ ہےکہ  سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح بھی پنجشیر چلےگئےتھے ۔

موصوف کا آخری حوالہ ان کی امریکہ اور بھارت نواز شخصیت ہے۔ چنانچہ کابل اور دیگر علاقوں سے فرار ہونے والے بہت سے افغان فوجی بھی پنجشیر پہنچ گئے تھے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھارت نواز سابق افغان حکومت کی باقیات پنجشیر میں جمع ہوگئ تھیں ، لہذٰا شمالی اتحاد کو امریکی سی آئی اے اور بھارتی راء کی بھرپور اور ناگزیر ہمدردیاں حاصل ہوچکی تھیں ۔

وہاں موجود یہ بچے کھچے لوگ افغانستان میں خانہ جنگی چاہنے والی طاقتوں کی آخری امید تھے ۔ پنجشیر میں جنگجوؤں کی تعداد 9ہزار تک پہنچ چکی تھی ۔ اس کے باوجود افغان طالبان وادی پنجشیر کو کامیابی سے فتح کرنے کا اعلان کرتے ہوئے گورنر ہاؤس پنجشیر پر اپنا پرچم بلند کرچکے ہیں اور سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح کو وہاں سے فرار ہونا پڑا ہے ۔

لیکن بھارتی میڈیا کسی صورت یہ ہزیمت برداشت نہیں پارہا ہے اور ایک صدمے کی سی کیفیت سے دوچار ہے ۔ بھارتی میڈیا کس منہ سے افغانستان کے حالات کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا سکتا ہے ؟ اس کے برعکس بتایاجائے کہ بھارتی فوج کی تربیت یافتہ افغان فوج کہاں غائب ہوگئی؟ اور اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر نہ ڈالا جائے۔ بھارتی میڈیا پر بیٹھے جنرل بخشی ، میجر گوروآریہ اور ارنب گوسوامی جیسے لوگ تمام تر اخلاقی حدود اور صحافتی رویوں کو پامال کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔

اپنے ہوش و حواس کھو چکے یہ نام نہاد بھارتی دانشور دو فاش غلطیوں کا ارتکاب کرچکے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ مسلسل جھوٹا پروپیگینڈا کرکے عالمی میڈیا میں بھارتی میڈیا کی ساکھ خراب کرچکے ہیں ۔ یہ بزعم خویش دانشور دن رات بھارتیہ جنتا کو آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج سے ڈرانے کا کام بھی بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔ اگر یہ سب ایسے ہی چلتا رہا تو یقیناً نفسیاتی جنگ میں ہماری بھارت پر سبقت ہمارے لیے خود بھارتی میڈیا کی طرف سے ایک بڑا تحفہ ہوگا ۔

کیونکہ اس سے بھارتیہ جنتا کا مورال مزید گرے گا جبکہ پاکستانی عوام کا اپنے دفاعی اداروں پر اعتماد مزید مستحکم ہوجائے گا۔ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے دورہ​ کابل پر سیخ پا بھارتی میڈیا کا رویہ کافی غیر مہذبانہ نظرآیا۔ افغان خواتین کے حقوق کی آڑ میں سڑکوں پر آنے والے دراصل خفیہ ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارتی میڈیا طالبان کو خواتین دشمن ثابت کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :