تباہ کاریاں!!!

بدھ 24 نومبر 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

چند روز قبل پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کم و بیش 33 بل منظور کیے گئے ، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
انتخابی  اصلاحات ترمیمی بل 2021،بھارتی جاسوسی کلبھوشن یادیو سے متعلق عالمی عدالت انصاف نظرثانی و غور مکرر بل2021 ،اسٹیٹ بینک آف پاکستان بینکنگ سروسز کارپوریشن ترمیمی بل 2021 ،مسلم عائلی قوانین میں ترمیم کے 2 بلز ،نیشنل کالج آف آرٹس انسٹی ٹیوٹ بل،اسلام آباد میں رفاہی اداروں کی رجسٹریشن، انضباط کا بل،انسداد ریپ (انوسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) بل2021 ،حیدرآباد انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنیکل اینڈ منیجمنٹ سائنس بل 2021 ،اسلام آباد میں تجدید کرایہ داری ترمیمی بل 2021 ،فوجداری قانون ترمیمی بل 2021 ،کارپوریٹ کمپنیز ترمیمی بل 2021 ،مالیاتی اداروں کی محفوظ ٹرانزیکشن ترمیمی بل 2021 ،فیڈرل پبلک سروس کمیشن قواعد کی تجدیدی بل 2021 ،یونیورسٹی آف اسلام آباد بل 2021 ،زرعی، کمرشل اور صنعتی مقاصد کے لیے قرض سے متعلق ترمیمی بل 2021،کمپنیز ترمیمی بل 2021 ،نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن ترمیمی بل 2021 ،اکادمی ادبیات پاکستان ترمیمی بل 2021 ،پورٹ قاسم اتھارٹی ترمیمی بل 2021 ،پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن ترمیمی بل 2021 ،گوادر پورٹ اتھارٹی ترمیمی بل 2021 ،میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی ترمیمی بل 2021 ،نجکاری کمیشن ترمیمی بل 2021 ،کووڈ-19 بل 20121 ،الکرم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ بل 2021 ،اسلام آباد وفاقی حدود میں جسمانی تشدد پر سزا سے متعلق بل 2021 شامل ہیں۔

(جاری ہے)

اگرچہ ان میں کچھ کا منظور ہونا انتہائی تشویشناک ہے مگر پاکستانی ذرائع ابلاغ میں سب سے زیادہ چرچا " انتخابی اصلاحات بل 2021 "کا رہا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ متنازعہ ووٹنگ مشین کو اپنا کر درحقیقت انتخابی اصلاحات کے نام پر پانی میں مدھانی چلائی گئی ہے کیونکہ یہ بل سرے سے کوئی انتخابی اصلاحات لے کر نہیں آیا بلکہ اس کا بنیادی مقصد محض رائے شماری کے طریقہ کار میں جدت لانے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔

درحقیقت حکومت خود کسی قسم کی اصلاحات نافذ نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ امیدواروں کی اسکروٹنی ، انتخابی اخراجات کی حدود کے تعین اور الیکشن کمیشن سے متعلقہ امور پر کسی قسم کی قانون سازی کی زحمت گوارا نہیں کی گئ ۔ تکنیکی اعتبار سے جو الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کروائی گئ ہے ، اس کی مدد سے دھاندلی روکنا ممکن نہیں ہے ، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کی خامیوں کے باعث دھاندلی کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں ۔

یہ بات عیاں ہوچکی ہےکہ حکومت نے پارلیمان میں اکثریت حاصل ہونے کے باوجود ملک میں کوئی ٹھوس اور جامع اصلاحات کا عمل شروع نہیں کیا ، اس کے برعکس تین برس تک یہ عذر پیش کیا جارہا کہ حزبِ اختلاف کی حمایت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اصلاحات نہیں ہو پارہیں ۔ حکومت نے اپنے من مانے قوانین پاس کروانے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور تو لگایا مگر حقیقی معنوں میں اصلاحات سے گریز کیا۔

   
اس کے بعد دوسرا متنازعہ ترین بل "اسٹیٹ بینک آف پاکستان بینکنگ سروس کارپوریشن آرڈیننس 2021 کا ترمیمی بل ہے کہ جس پر ملکی ذرائع ابلاغ نے خاطرخواہ توجہ نہیں دی ۔ یہ وہ بل ہے کہ جو پاکستان کی سالمیت کے لیے زہر قاتل بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ نئے بل کے تحت اسٹیٹ بینک کے تمام ان امور کو کسی بھی قانونی کارروائی سے استثنیٰ دیا گیا ہے جو ‘نیک نیتی‘ سے کیے گئے ہوں۔

یہ بل کی وہ  شق ہے جو پارلیمان سے منظور شدہ بل اور آئی ایم ایف کے ساتھ  زیرِ بحث مجوزہ تجاویز سے مماثلت رکھتی ہے۔ چنانچہ اب سٹیٹ بینک کے اہلکار کسی قومی تفتیشی ادارے جیسے نیب یا ایف آئی اے کو جوابدہ نہیں ہوں گے، جس کا ممکنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ  آئی ایم ایف کے زیادہ  قریب ہو جائیں گے ، جبکہ ریاستی اثرورسوخ کمزور پڑ جائےگا جوکہ ملکی سالمیت داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ پھر اس بل میں کئ ابہام موجود ہیں جیسے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون سا اقدام نیک نیتی پر مبنی تھا اور کون سا نہیں؟ بتایا جائے کہ ایسے اقدامات کے ذریعے کسے خوش کیا جارہا ہے ؟ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :