اسرائیل حماس جنگ بندی کے پیچھے کون اور کتنی موثر؟

بدھ 26 مئی 2021

Baber Ayaz

بابر ایاز

 نہتے فلسطینیوں پر 6 مئی سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت بالاآخر 11 روز کے بعد عالمی وقت کے مطابق صبح 2 بجے فریقین کے درمیان غیر مشروط جنگ بندی پر ختم ہوئی ۔ اس جارحیت سے جہاں فلسطینی انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوا وہی قیمتی جانوں کا ضیاع بھی برداشت کرنا پڑا ۔ اسرائیلی بے رحمانہ بمباری کے نتیجے میں 248 مظلوم فلسطینی شہید ہوگئے ہیں جن میں 66 معصوم بچوں سمیت 39 خواتین بھی شامل ہیں ۔

ان وحشیانہ حملوں میں 1948 فلسطینی زخمی بھی ہوئے جبکہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی دفاعی کاروائی میں 12 اسرائیلی بھی ہلاک ہوچکے ہیں ۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے 10 مئی کو ماہ مبارک رمضان کے آخری عشرے میں غزہ پٹی پر وحشیانہ بمباری شروع کی تھی جو اب وقتی جنگ بندی کی صورت میں اختتام کو پہنچی ہے ۔

(جاری ہے)

گو کہ اسرائیل کئی دفعہ اسطرح کی بربریت کا ارتکاب کر چکا ہے مگر اس دفعہ ماضی کی نسبت اسے غیر معمولی مزاحمت کا سامنا رہا جبکہ دوسری طرف حماس بھی پہلے سے زیادہ موثر طاقت بن کر ابھری ہے ۔

اسرائیل اپنے اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام ہوا ہے جسکی وجہ عالمی طاقتوں کا شدید اور موثر ردعمل قراردیا جارہا ہے ۔ اسرائیلی جارحیت پر بلائے جانے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھارت نے غیر متوقع طور پر فلسطینیوں کی حمایت کی وہی چین بھی مشرق وسطی کی سیاست میں کھل کر سامنے آیا ہے ۔ چین نے نہ صرف سلامتی کونسل اجلاس کا اعلامیہ رکوانے پر امریکہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی وہی پر زور طریقے سے اسرائیلی حملوں کو رد بھی کیا ۔

اس جنگ بندی میں چین کے ساتھ روسی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ روس کے ایران اور شام کیساتھ بہترین تعلقات ہیں جبکہ یہ دونوں ممالک اسرائیل کے سب سے بڑے دشمن گردانے جاتے ہیں ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق روس نے واضع الفاظ میں اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل مزید جارحیت سے باز نہیں آیا تو روس براہ راست مداخلت کر سکتا ہے جسکی وجہ سے اسرائیل غیر مشروط جنگ بندی پر راضی ہوگیا ۔

دوسری طرف اگر مسلم ممالک کی بات کی جائے تو عربوں نے صرف روایتی مذمت سے کام چلایا جبکہ پاکستان، ترکی اور ایران نے عملی اقدامات اٹھائے ۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فلسطینی و ترک ہم منصب کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں بھرپور طریقے سے فلسطینی عوام کا مقدمہ لڑا ۔ ترکی و ایران نے فلسطینیوں کے دفاع کے لئے مشترکہ فوج کے قیام پر زور دیا ہے اگر ایسا ہوا تو اسرائیل و فلسطین کے مابین عسکری توازن کچھ حد تک قائم رہ سکتا ہے ۔

ان تمام کوششوں میں سب سے اہم وہ انکشاف ہے جو کویتی سینئر صحافی اور دانشور نے اپنی ٹویٹ میں کیا ہے۔
ڑاکٹر عبداللہ النفیسی کے مطابق اگر اسرائیل مزید کاروائیاں جاری رکھتا تو پاکستان و ترکی عراق اور اردن کی بیسسز کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیل پر فضائی حملہ کر سکتے تھے جسکی خبر امریکی صدر جوبائیڈن کو بھی تھی لہذا انھوں نے اسرائیل کو آگاہ کر کے جارحیت بند کرنے پر زور دیا یوں اسرائیل جنگ بندی پر راضی ہوگیا ۔

اب اس بات میں کتنی حقیقت ہے یہ تو پاکستانی ذرائع ہی بتا سکتے ہیں لیکن اچانک جنگ بندی کسی غیر معمولی صورتحال ہی کی وجہ سے عمل میں آئی ہے ۔ ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے تو اسرائیل کے لئے جنگ بندی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا مگر سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ اسرائیل جارحیت سے باز رہے گا ؟ اسکا جواب نفی میں دیا جاسکتا ہے ۔ اسرائیل جب چاہتا ہے بغیر کسی روک ٹوک کے غزہ پر چڑھ دوڑتا ہے اور فلسطینیوں کو حتی المقدور کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔

افسوس کہ ماضی میں اسرائیل کے خلاف کوئی سخت ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا جس نے حالیہ المیے کو جنم دیا ۔ اسرائیل کچھ عرصے کے لئے خاموش ضرور رہے گا مگر پھر کوئی بہانہ کرکے مظلوم فلسطینیوں پر جارحیت شروع کر دے گا ۔ اقوام عالم اور امت مسلمہ کو چاہیے کہ اسرائیل کا کڑا حساب کرکے انصاف کے کہٹھرے میں کھٹرا کیا جائے تاکہ آئندہ خاک و خون میں غلطاں فلسطینی بچوں کی آہ و بکا نہ سننی پڑے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :