بھٹو سے خان تک کا سفر

جمعہ 9 اپریل 2021

Chaudhry Abdul Rehman

چوہدری عبدالرحمان

شروع میں بھٹو صاحب جب اپوذیشن کی کرسیوں میں بیٹھا کرتے تھے تو ان کے پاس اس وقت ایک ہی سیٹ ہوتی تھی نیشنل اسمبلی کی اور وہ کچھ ساسیی پروگرامز میں آیا کرتے تھےاور وہ کہتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کے رول کو جتنا کم ہو سکے اتنا ہونا چاہیے جبکہ عملی طور پر جنرل محمد ایوب خان بھی یہی بات کرتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کے رول کو کم تر ہونا چاہیے لیکن جب دونوں اقتدار میں آئے تو دونوں نے سب سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کا استعمال کیا اسی طرح سے وزیراعظم عمران خان بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں ہیں یا وہ خود اسٹیبلشمنٹ کا استعمال بن  رہے ہیں، "کون جانتا ہے" ؟؟؟
1970 کے الیکشن میں جو ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کی طرف سے نعرہ لگایا گیا تھا اسلامی نعرہ تھا اور بھٹو صاحب کی پارٹی لیفٹسٹ سوشلسٹ پارٹی ہونے کے باوجود بھٹو صاحب کہتے تھے کہ اسلام ہمارا معاشی نظام ہے۔

(جاری ہے)

اسی طرح کی بات تھوڑی مختلف کرکے ہمارے عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ ہم ریاست مدینہ بنائیں گے۔
بھٹو صاحب کی بہت سی کامیابیوں میں ایک کافی حد تک کامیاب ہونے والی کوشش اسلامی بلاک بنانا تھا اور یہ الگ بات ہے کہ اس وقت کی سپر پاورز اس بات کے سخت خلاف ہو گئی کیونکہ یہ اس وقت کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان ایک تیسری نئی طاقت بننے کی ایک بڑی کوشش کی تھی۔

اور یہی بات ان بڑی طاقتوں کو ہرگز نہ قابل قبول تھی۔ اور اسی وجہ سے انہوں نے بہت سارے رہنماؤں کو جو اس اسلامک بلاک میں جو مدد کر رہے تھے اور جو حصہ بن رہے تھے انہیں انہوں نے قتل کروا دیا۔ اسی طرح ہمارے وزیراعظم عمران خان بھی چاہتے ہیں کہ کوئی اسی طرح کا اسلامک بلاک بنایا جائے۔ اور اس بلاک میں اپنی کرنسی بنائی جائے، اپنا میڈیا بنایا جائے اور سیاحت کی سہولیات فراہم کی جائیں جس میں کم سے کم سے اخراجات ہوں۔


وزیراعظم عمران خان کی طرح ذوالفقار علی بھٹو بھی ہمارے ملک پاکستان کا چہرہ تھے۔ بہت سارے لوگ وزیراعظم عمران خان صاحب کی وجہ سے پاکستان کو جانتے ہیں اور اس زمانے میں بھٹو صاحب کی وجہ سے لوگ پاکستان کو جانتے تھے۔ کیونکہ بھٹو صاحب بہت بڑے مقرر تھے نیشنل اور انٹرنیشنل لیول کے فورم پر اور اور ان کی تقریریں بڑی اثرانداز ہوتی تھی ، اسی طرح وزیراعظم عمران خان بھی مقرر ہیں مگر ان کا بھٹو صاحب کے ساتھ موازنہ اس حوالے سے کرنا ٹھیک نہیں ہوگا کیونکہ ان کی تقریریں اصل موضوع سے ہٹ جاتی ہیں بہرحال یہ دونوں انٹرنیشنل اور نیشنل لیول کے مقرر ہیں۔


بھٹو صاحب کی طرح عمران خان صاحب کو بھی بہت اچھا لگتا ہے کہ جب کوئی ان کی تعریف اور خوشامد کرے۔ یہ وہ وجہ تھی جس کی وجہ سے بھٹو صاحب کے پاس جو پرانے اور وفادار سیاسی رہنما تھے اپنی سیاسی جماعت کے حوالے سے کوئی بہتری یا کوئی حق میں بات کرنا چاہتے تو وہ انہیں خاموش کروا دیتے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ میں ہی عقل قل اور میں جو فیصلہ کروں گا وہی بہترین ہوگا۔

اسی طرح آج کے وزیراعظم عمران خان صاحب بھی کرتے ہیں وہ تمام لوگ جو بہت زیادہ وفادار ہیں مثلا وہ جو نعیم الحق صاحب تھے عمران خان صاحب نے ان کے نماز جنازہ میں بھی جانا گوارا نہ کیا۔ اس طرح کی ماضی میں بہت سی مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ بات بتانے والی یہ ہے کہ کوئی بھی انسان عقل قل نہیں ہوتا اسے مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ دونوں شخصیات مشاورت کے سخت خلاف ہیں۔


بھٹو صاحب کی طرح عمران خان صاحب کو بھی یہی لگتا ہیں کہ ہم جمہوریت کو پروان چڑھانے والے ہیں اور کوئی اور نہیں ہے صرف اور صرف ہم لوگ ہیں جب کہ دونوں سیاسی جماعتیں اس بات پے سوال نہیں اٹھاتی کہ یہ جو لوگ آگے آتے ہیں کہ کس طریقہ کار سے آگے آتے ہیں یہ ایک ہی طریقہ کار ہے وہ نامزدگی کا ہے مگر بھٹو صاحب اور عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ جو ہماری نامزدگی ہے وہی آخری نامزدگی ہے۔

کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ سیاسی جماعت کے اندر الیکشن ہوئے ہوں زندگی میں ایک ہی دفعہ الیکشن ایسے ہوئے تھے جس میں خان صاحب نے اپنے آپ کو بطور امیدوار پیش ہی نہیں کیا اور وہ بلا مقابلہ ہی جیت گئے تھے اور باقی کے الیکشن کی آج تک کوئی خبر نہیں ؟؟؟؟؟
بھٹو صاحب نے کچھ مستند فیصلے کیے جیسے دو صوبوں میں ان کی حکومت نہیں بنی تھی ایک بلوچستان میں اور دوسرا N.W.F.P اس وقت کا اور آج کا خیبرپختونخوا اور انہیں اس بات سے قطعاً کوئی پرواہ نہیں تھی کہ ان دو صوبوں میں میری حکومت نہیں بنی تو ان کو میں اب برداشت کروں ان سے یہ برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ میری حکومت ان دو صوبوں میں کیوں نہیں بنی اور اس ایک وجہ سے انہوں نے اپنی فیڈرل اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے دونوں صوبوں کی حکومتوں کو برخاست کرا دیا اور جو الزام لگایا وہ بہت ہی پرانا الزام تھا یہ نیشنل سکیورٹی کے لیے خطرہ بن رہے تھے اور اس کے خلاف گٹھ جوڑ بنا رہے تھے پاکستان کی فیڈریشن اور سالمیت کے خلاف۔

بھٹو صاحب کے ایک نمایاں الزام یہ تھا کہ انہوں نے یہ جو فیڈرل سکیورٹی فورس بنائی ہے یہ اپوزیشن کے خطرات کو تخفیف اور کم کرنے کے لیے بنائی ہے۔ اور اسی طرح سے وزیراعظم عمران خان  مثال کے طور پر نیب اور بھی بہت سے طریقوں سے یہ اپوزیشن کے خطرات کو تخفیف کرتے آرہے ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی طرح عمران خان صاحب کو بھی لگتا ہے بے شک میرے وزیر کرپشن کے لئے مشہور ہو چکے ہیں ان پر بہت سارے چارجز کرپشن کے ہیں مگر یہ دونوں سوچتے تھے کہ ہماری شخصیت تو صاف اور پاک ہے نہ بس یہی کافی ہے اگرچہ عملی طور پر ان وزیروں نے ہی کام کرنا ہوتا ہے اور پاکستان کے وزیر یہی ڈیڑھ دو سو لوگ ہیں جو جرنل پرویز مشرف کے زمانے سے لے کر آج تک پاکستان کی پارلیمنٹ میں اقتدار سنبھالے بیٹھے ہیں اور ہر حکومت میں ہم ان کے چہرے دیکھتے آرہے ہیں، درحقیقت یہی لوگ پاکستان کو اپنی منشا کے مطابق چلا رہے ہیں۔

بھٹو صاحب کے دور میں تو میڈیا پر سنسرشپ  بہت سخت قسم کی تھی اور آج کا آپ کو بہتر پتا ہے!!!
زوالفقارعلی بھٹو صاحب کو لگتا تھا کہ میری شخصیت بڑی ولولہ انگیز قسم کی ہے اور اسی چکر میں انہوں نے 1970 کے جنرل  الیکشن وقت سے پہلے ہی اناؤنس کروا دیے کیونکہ انہیں لگا کہ اگر میں وقت سے پہلے الیکشن اناؤنس کروا دوں گا اور میری جیت تو اٹل ہے کیونکہ لوگ  میری شخصیت کو پہچانتے ہیں اور دوسری سیاسی جماعتوں کو اتنا وقت ہی نہیں ملے گا کہ وہ اپنی صحیح سے تیاری کرسکیں تو ہوا بھی ایسے ہی۔

اس الیکشن میں  انہوں نے بھاری اکثریت سے جیت حاصل کی اور اس جیت کے خلاف اس وقت کی نویں سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوگئی اور اسی طرح اگر آپ بات کریں وزیراعظم عمران خان کی تو انہوں نے بھی اپوزیشن کو اکٹھا کر دیا ہے۔  انہیں لگتا ہے کہ ہم وقت کے سلطان صلاح الدین ایوبی ہیں، " سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب صلیبی جنگیں شروع کی تو ان سے کسی نے کہا کہ یہ تو سارے اکٹھے ہو گئے ہیں، ساری قوتیں اکھٹی ہو گئی ہیں تو  اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی نے بڑا تاریخی جملہ کہا کہ یہی اصل موقع ہے یہاں پر جب میں انہیں شکست دوں گا تو ان کی صدیوں تک آنے والی نسلیں کبھی اٹھ نہیں سکے گی۔

۔۔۔"
بات سمجھنے والی یہ ہے کہ سیاست اور لڑائی میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ سیاست میں دشمن کو کبھی بھی اکٹھا ہونے کا موقع نہیں دیتے انہیں الگ رکھتے ہیں تاکہ اپنا فائدہ زیادہ سے زیادہ ہو سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی طرح وزیراعظم عمران خان نے بھی ایسا نہیں کیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :