یورپ میں پھیلتا اسلامو فوبیا اور صلیبی جنگیں

پیر 2 دسمبر 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

 اگر ہم موجودہ عالمی حالات کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیرن آرمسٹرانگ کی مشہور کتاب (The Crusades) کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ لڑکپن میں جب وڈیو گیمز کے جنون نے عروج پکڑا تو امریکہ کے سافٹ وئیر ماہرین کی وڈیو گیم StrongHold ہاتھ لگ گئی، یہ گیم کیا تھی ،بس ایک نشہ سا تھا ۔گیم میں آپ کو پرانے زمانے کے قلعے حوالے کردیے جاتے ، آپ کو ہر مشن میں اپنے محل کو مضبوط سے مضبوط کرنے کے ساتھ بہترین فوج تیار کرنا ہوتی تھی۔

آپ کسانوں ،لکڑہاروں کے گھروں سے گیم کا آغاز کرتے، بادشاہ کے محل کے اردگرد جنگی سازوسامان تیار کرنے کی آرمر عمارات قائم کرتے اور وہیں پھر آپ بادشاہ کے دربار کے پاس بیٹھی عوام کو جنگ میں شامل کرتے،اس گیم میں آپ کو لوگوں کو کئی بار سمجھانا پڑتا کہ یہ The Crusades ہے، ہمیں بہت خطرہ ہے، ہمیں خود کو بچانا ہے، جب ایک بہترین فوج تیار ہوجاتی تو آپ یہ لشکر لے کر ہرے جھنڈوں والے کسی قلعے کی طرف نکل پڑتے اور پھر بہترین جنگ ہوتی ،جس میں اگر آپ اچھی ذہانت دکھاتے تو محل کے کسی چور راستے سے فوج داخل کرکے بہترین جنگ لڑتے چلے جاتے،اگر آپ فوج بنانے میں تھوڑی دیر لگادیتے تو پھر ہرے جھنڈے والے آپ کے محل پر آپ سے پہلے پہنچ جاتے ،اور یوں دیر سے جنگ آپ کو جارحانہ ہونے کی بجائے دفاع کے لیے لڑنا پڑتی اور وہ مشن آپ اکثر ہار جاتے۔

(جاری ہے)


 کیرن آرمسٹرانگ کی کتاب کے مطالعہ کے دوران مجھے ہر صفحے پر ایسا لگا کہ میں وہ گیم کھیل رہا ہوں۔ تاریخ میں سب سے پہلے یہ جنگ اس کتاب میں 1096ء میں دکھائی گئی کہ جب مسلمانوں سے بیت المقدس چھیننے کی کوشش کی گئی ،یہ جنگ تین سال جاری رہی،مگر تاریخ اس سے زیادہ پرانی ہے ، ظہور ِ اسلام سے پہلے یہودی اور عیسائی بہت با اثر تھے، جب ان کی طاقت ٹوٹتی دکھائی دینے لگی ، تو انہوں نے اسلام کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا گیا ، مگر اونٹ چرانے والے جاہل عرب اس قدر طاقت ور نکلے کہ انہوں نے بہت جلد عیسائی اکثریت ممالک مصر، شام، عراق ، ایران(آتش پرست)،اسپین،وسط ایشیاء،آرمینیاء،آذر بائی جان، کریٹ اور قبرص پر قبضہ کرلیا۔

آنے والے سلسلے 1096ء کی جنگ تک جانکلتے ہیں، اس کے لیے پوپ اربن دوم نے عیسائیوں کو اکسایا اور بیت المقدس ،فلسطین اور ملحقہ علاقے فتح کرلیے گئے۔دوسری صلیبی جنگ 1147ء اور تیسری جنگ1189ء میں لڑی گئی اور اس کا مقصد مشہور مسلمان جرنل صلاح الدین ایوبی کو بیت المقدس کے حملے سے روکنا تھا،دوسری طرف انگلستان کا بادشاہ رچرڈ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس جنگ میں شریک تھا،اس جنگ میں ایوبی کو فتح حاصل ہوئی ،مگر یہ سلسلہ یہاں تھما نہیں۔

یہ ایک سے دو سو سال تک چلنے والا صلیبی جنگوں کا پہلا عشرہ تھا۔ دوسرا عشرہ تیروہیں صدی کے اواخر اور چودہویں صدی کے شروع میں ظہور پذیر ہوا، اس عشرے میں انگریز ،ہسپانوی ،جرمن حکمرانوں نے مراکش،تیونس، الجیریا، مصر،لیبیا،سوڈان،چاڈ،یوگنڈا،سینی گال،شام،فلسطین،انڈیا،گمبیا،مالی،گنی وغیرہ پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی۔

یہ سلسلہ اس کے بعد کسی مہلک بیماری کی طرح تھما نہیں، مگر اس کی شدت میں کمی آگئی۔ برصغیر پاک و ہند میں ایسی شدت جنگ آزادی کے بعد دیکھنے کو ملی ، مگر پھر اڈولف ہٹلر کے آنے کے بعد ، یہودیوں کی طرف اڈولف کی بدترین قاتلانہ پالیسیوں اور جرمنی کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنانے کے جنون نے صلیبی جنگ کا جنون بالکل ختم کردیا۔
اڈولف ہٹلر کے بعد عالمی طاقتوں میں کولڈ ورلڈ وار چھڑ گئی اور یوں صلیبی جنگیں اسی جنگ میں ضم ہوکر رہ گئیں۔

1948ء میں صہیونی ریاست کے قیام اور اس کو تقویت بخشتی ریاستوں نے آنے والے سالوں میں پہلے عشرے کی یاد تازہ کردی ، مورخ اس عشرے کو Reborn Christians سے منسوب کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ جارج بش سینئر و جونئیر، ٹونی بلئیر ،سرکوزی اور دیگر حکمرانوں کا گٹھ جوڑ تھا۔ اس عشرے میں یہ جنگ بہت مختلف طریقے سے لڑی جانا تھی۔ ستر کی دہائی کے بعد ،وہ تمام مسلمان حکمران ،جو مسلم ریاستوں کو ساتھ ملا پوری امت کو اکٹھا کرنے جارہے تھے، ان کو چالیس سال کے اندر اندر عبرت ناک انجام تک پہنچا دیا گیا۔

کولڈ ورلڈ وار کو بہت ہی عیاری سے استعمال کرتے ہوئے ،جہاں روس کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ،وہیں اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کئے گروہوں کو 9/11 کے بعد دہشت گردی کے ساتھ اس عیاری سے ملایا گیا کہ اسلام اور انتہاپسندی میں فرق ختم کرکے پیش کیا گیا۔عراق ،کویت جنگ کی طرح ،مسلم ممالک کو آپس میں لڑایا گیا،ایک کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا ،اس کو شاباش دی اور دوسری کو بھی اسلحہ بیچتے گئے،یوں اپنی سب سے بڑی کمائی کے ذریعے کو بھی زندہ رکھا اور ہمیں بھی مارتے چلے گئے۔

ناقدین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ پچاس کی دہائی کے بعد سے صلیبی جنگ اپنے 1096ء اصل روپ میں لوٹ آئی ہے۔ 90ء کی دہائی میں مسلمانوں کو پوری دنیا میں خوف کی علامت بنانے کے لیے Crusadesکی آڑ میں ایجنسیوں کی مدد سے ایک نئی اصطلاح متعارف کرائی گئی۔
یہ سب ISLAMOPHOBIA کہلاتا ہے،یعنی پوری دنیا پر اسلام کا خوف طاری کردو،اسے دہشت گردی،انتہاپسندی کے ساتھ ملا دو کہ لوگ اسلام کے نام سے خوف کھانے لگیں۔

القائدہ،داعش،کردش تنظیمیں یہ سب اسی اصطلاح کی وجہ سے وجود میں لائی گئیں اور ہر ائیر پورٹ پر مسلمانوں کے کپڑے اتارے جانے لگے،ان کے پاسپورٹ پوری دنیا میں ریڈ سگنل ہوگئے اور پاکستان سمیت کئی مسلم ریاستیں اس فوبیا کی وجہ سے کئی سال پتھروں کی دنیا میں دھکیل دی گئیں۔ اس سب کے باوجود چونکہ ظلم کشمیر،فلسطین،عراق کے مسلمانوں پر ہورہا تھا،انسانی حقوق کی تنظیمیں آج بھی اس پر آواز اٹھا رہی تھیں،چنانچہ ایسے سوشوں کی گنجائش موجود تھی،جو یورپ میں پہلے سے موجود مسلمانوں کو بھی انتہا پسند قراد دیں،اور اس سب کے لیے انہیں اشتعال دلانا ضروری تھا۔

اس ضمن میں مغربی دنیا میں گستاخانہ خاکوں اور دیگر توہین آمیز جسارتوں کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا،مقصد صرف وہاں پہلے سے موجود مسلمانوں کو بالخصوص اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو بالعموم اشتعال دلا کر ان سے ایسے اقدام کرانا تھا کہ جس سے پوری دنیا کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ اس مذہب سے تعلق رکھنے والے تمام افراد ہی شدت پسند ہیں اور یہ کسی بھی ملک یا خطے سے تعلق رکھتے ہوں،ان کا مغربی دنیا میں وجود خطرے کی علامت ہے اور ان کو یہاں سے نکال دیا جائے۔

حال ہی میں ناروے کے شہر کرسٹینڈ میں قران پاک جلانے کی ناپاک کوشش بھی اسیISLAMOPHOBIA کو ہوا دینے کی کوشش تھی،اسی شہر سے تعلق رکھنے والے ایک کامیاب چارٹر اکاؤنٹنٹ بھائی محمد الیاس نے ایک بہترین تحریر لکھی اور راقم القلم نے ان سے رابطہ کرکے مزید حقائق اپنے قارئین کے لیے جاننے کی کوشش کی۔ محمد الیاس اس مجمع کا حصہ تھے، جہاں 16 نومبر کو ایک ستاسی سالہ ملحد ملعون شخص آرنے تھومیر گستاخانہ حرکت کرنے والا تھا۔

اس نے کچھ عرصہ پہلے اسلاموفوبیا کی آڑ میں ایک تنظم بنائی جس کا نام SIAN تھا،یعنی اسلام کو ناروے میں پھیلنے سے روکا جائے۔اس کی تنظیم ایسا کرنے میں ناکام ہورہی تھی،اس نے ناروے کے ایسے شہر میں جہاں اسی ہزار کی آبادی میں دو ہزار مسلمان تھے،قران پاک کو جلانے کی ناپاک ترین جسارت کا اعلان کیا۔ناروے کا قانون حرکت میں آیا۔اس نے جب جلسے کا وقت منتخب کیا،اس وقت بڑی تعداد میں پولیس وہاں موجود تھی۔

پولیس نے باقائدہ مساجد سے اعلان کرائے کہ یہ ناپاک جسارت خود پولیس روکے گی۔ مگر جیسے ہی جلسہ گاہ میں ملحد نے یہ حرکت شروع کی،عمر دھابہ نامی ایک نوجوان اس پر ٹوٹ پڑا۔یوں ستاسی سالہ ملحد جو چاہ رہا تھا،اس نے کرلیا،مطلب اس نے عمر دھابہ اور دیگر دو ہزار مسلمانوں کی آبادی کو پوری دنیا کے سامنے شدت پسند ثابت کر نے کے لیے جو جال بچھایا تھا،وہ کامیاب رہا۔

ہم اگر بطور مسلمان بات کریں تو ہم میں سے کوئی بھی شخص اگر اس مجمع کا حصہ ہوتا تو وہ یقینا وہی کرتا جو عمر دھابہ نے کیا ،مگر ہمیں تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہوئے،صلیبی دنیا کی واپسی کے اس دور میں اسلاموفوبیا کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
 محمد الیاس کی تحریر اسی بات کی طرف اشارہ تھی۔ یہ بات درست ہے کہ اگر ایسی کوئی حرکت پاکستان، ایران جیسے ملک میں کوئی ملحد کرنے کی کوشش کرے تو اس کو اسی وقت انجام پر پہنچا دینا چاہیے،مگر ہمیں یورپ میں کہ جہاں اسلام کو پھیلانا ہے،ہمیں اس نئی اصطلاح یا نئے حملے کو بھی سمجھنا ہوگا۔

عمر دھابہ کے اقدام کو سراہا جانا چاہیے،مگر ساتھ ہی یورپی دنیا کی سائیکی اور ان کے ذہن کو بھی سمجھنا ہوگا۔ یورپی دنیا میںThe Crusades اب ذہنوں سے لڑی جارہی ہے، یہ نسلوں کی برین واشنگ ہے اور ایسے میں اگر ہم نے جذبات کی آڑ میں ملحد آرنے تھومیر جیسے جہنم واصل کو مزید مواقع دیے تو شاید ہم حقیقی طور پر اسلاموفوبیا کو یورپ میں پھیلانے کے موجب بنیں گے اور یوں ہم The Crusades کی بھینٹ چڑھ جائیں گے اور صدیوں سے جاری جنگ بغیر کسی ہتھیار کے جیت لی جائے گی۔ہمیں اسلام کے سلامتی اور پر امن مذہب کے پیغام کو مل کر پوری دنیا میں عام کرنا ہے،اور ایسے میں ہمیں کفار کی ہر سازش سے نہ صرف باخبر رہنا ہے بلکہ اس کا تدارک بھی کرنا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :