وکلاء گردی،نظام اور معاشرہ

ہفتہ 21 دسمبر 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

 یہ سب محروم معاشروں میں ہوتا ہے۔ جہاں نظام کالی راتوں کا اسیر ہو،وہاں فتنے پلنے لگتے ہیں اور پھر ایسے واقعات ہوجاتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔ جب بھی معاشروں میں نظام مفلوج ہوتا ہے تو وہ کینسر کی شکل اختیار کر لیتا ہے کہ جہاں کچھ خلیوں کو اکٹھا ہوکر، دوسروں کی خوراک کھانی پڑتی ہے،کچھ کھا کھا کر پھٹ جاتے ہیں اور کچھ بھوکے رہ کر،نقصان پورے جسم کو ہوتا ہے اور پورے جسم کی موت ہوجاتی ہے۔

 
میڈیا کے کیمروں کو پولیس کی جلتی وین نظر آئی ، کسی غریب کی دل کی مریضہ بیٹی کا آکسیجن ماسک اتارا جاتا نظر آیا، ملک کے سب سے بڑے دل کے ہسپتال پر بلوائیوں کا حملہ نظر آیا، مگر جو نظر نہیں آیا وہ سب اس سب کی محرکات تھیں۔ کہتے ہیں وقت کرتا ہے پرورش برسوں،حادثہ ایک دم نہیں ہوتا،جو کچھ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی یعنی پی آئی سی میں ہوا،وہ سب بھی کچھ ایسا ہی تھا۔

(جاری ہے)

ایک وکیل صاحب اپنی والدہ کی دوائی لینے،کسی کاؤنٹر پر آئے،ان کو کسی دوسری کھڑکی پر جانے کا کہا گیا،وہ بپھر گئے،انا اور کالے کوٹ کی حرمت کا سوال تھا، باہر سے ساتھیوں کو بلوایا اور ڈسپنر کو مارنے لگے،پورے ہسپتال کا عملہ اکٹھا ہوا،ان کو مار پڑی اور یہ سب کیمروں نے ریکارڈ کرلیا۔
 ادھر پنجاب بار کونسل کے الیکشن سر پر تھے،ان الیکشنز کو کوئی ٹرمپ کارڈ درکار تھا ،جو انہیں کالے کوٹ کی حرمت اور تقدس کی بحالی کی صورت میں مل گیا۔

قانون ہاتھ میں تھا، لحاظہ دہشت گردی کی دفعہ 7ATA سمیت، ہر طرح سے نظام کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی اور معمولی سی بات پر، ملکی تاریخ کی بدترین ایف آئی آر کاٹی گئی کہ جس میں ایسے ڈاکٹروں کو بھی نامزد کیا گیا ،جو کسی صورت اس لڑائی کا مرکزی کردار نہیں تھے۔ آپ اس سب کے تاریخی پس منظر میں جائیں تو آپ کو علی احمد کرد اور اعتزاز احسن کے نعرے سنائیں دیں گے،آپ کو ایک آمر کے خلاف کھڑا ہوتا چیف جسٹس دکھائی دے گا اور پوری وکلاء تحریک جنم ہوتی دکھائی دے گی۔

بالکل ویسے جیسے تامل ٹائیگرز پیدا کیے گئے۔ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے والی ایسی قوت جو پورے نظام کو کچلنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔اس تحریک کی کامیابی کی محرکات سیاسی تھیں، مگر اس نے آنے والی وکلاء نسل میں ایک ایسا بیج بو دیا ،جس نے قانون کو تماشہ بنا دیا۔
 کالے کوٹ کو سرکاری ملازم جیسی مراعات دی گئیں،انہیں ہسپتالوں میںEntitlement دی گئی کہ جب چاہیں ،کسی بھی ہسپتال میں وہ مراعات حاصل کرلیں جو ایک سرکاری ملازم کو حاصل ہوتی ہیں،ان کو مختلف محکموں میں چھوٹ دی گئی،یہاں تک کہ ان کو سڑک پر کوئی ہاتھ لگائے تو اس پر دہشت گردی کی دفعہ کے نفاذ تک کو قانون کا حصہ بنا دیا گیا۔

آپ بھوکوں کے جنگل میں،کسی ایک کے ناخن بڑھا کر تراشتے چلے جائیں تو کیا آپ کو اس دن کا انتظار ختم ہوجائے کہ کب نظام کی تعفن زدہ لاش کو نوچا جائے گا؟ ادھر پنجاب حکومت ،پنجاب کے ہسپتالوں میں ایم ٹی آئی کا نفاذ چاہ رہی تھی، جو ڈاکٹروں ،نرسوں اور ہسپتا ل کے دیگر عملے کی نظر میں شاید نجکاری تھی ، چند سالوں پہلے وجود میں آنے والی ینگ ڈاکٹرز کی جماعت وائے ڈی اے پورے ملک میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص اتنی طاقت ضرور پکڑ چکی تھی کہ وہ اس سب کو پوری طاقت سے روکنے کی کوشش کرے،اس ضمن میں نرسز کی جماعت وائے این اے اور دیگر عملے پیرامیڈیکس کی ایسوسی ایشن کا پنجاب بھر میں الحاق ہوا اور گرینڈ ہیلتھ آرگینائیزیشن بنائی گئی، جو جی ایچ اے کہلاتی ہے۔

اب یہ ایک انتہائی طاقتور تنظیم تھی، جس کا بنیادی مقصد ایم ٹی آئی کے نفاذ کو روکنا تھا۔
 اب جب وکیلوں اور ڈسپنسرز کی لڑائی کا معاملہ سوشل میڈیا کی نظر ہوا، تو وکلاء کی تنظیموں نے اس میں ڈاکٹروں کو شامل کرلیا۔ ڈسپنسرز ، گرینڈ ہیلتھ الائنس کا حصہ تھے،اور یوں براہ راست دو انتہائی طاقتور تنظیموں کا آمنا سامنا ہوگیا۔ ادھر جی ایچ اے،نظام سے ٹکرانے کے لیے بنائی گئی تنظیم اور ادھر چیف جسٹس بحالی کے لیے لڑنے والی وکلاء تحریک کے بعد وکلاء کی تنظیمیں، یہ دونوں نظام کی محرومیوں کی پیدا وار تھیں ،مگر دونوں کا مقصد اپنے پیشے کے تقدس کی بحالی تھی۔

یہ آپس میں ٹکرا گئیں،اتنے دن سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر بحث چلتی رہی اور یہ سب جھگڑا ختم کرانے والا کوئی ہاتھ نظرنہ آیا۔ سرکار راج کی رٹ کہاں تھی؟اس وقت بھی نہیں جب پنجاب کے سب سے بڑے ہسپتال پر بلوائیوں کی طرح ٹوٹنے کی پلاننگ ،پنجاب بار کونسل کی الیکشن مہم میں کی جاتی رہی، اور کئی سو وکلاء اگلے دن ہسپتال پر حملے کے لیے کچہری سے نکل پڑے۔

ڈاکٹر عرفان کی ایک وڈیو کو نوجوان وکلاء کو اشتعال دلانے کے لیے راتوں رات وٹس ایپ پر پھیلایا گیا۔یہ وڈیو لڑائی کے ابتدائی دنوں کی تھی،جس کے بعد متعدد بار جی ایچ اے نے وکلاء سے معافی مانگ کر،معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش بھی کی تھی،مگر کیونکہ الیکشن سر پر تھے اور وکلاء کی تنظیموں میں ایک دھڑا کالے کوٹ کی حرمت پر الیکشن لڑ رہا تھا،وہ کسی طور اس معاملے کو ختم ہوتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔

۔۔
 چنانچہ ایک بار کونسل کا الیکشن ،بلوائیت کی شکل اختیار کر گیا، اور پھر جو ہوا،وہ شاید دو ملکوں کی بدترین جنگ میں نہیں ہوتا ہوگا۔ کئی غریب مریض ہنگاموں کی نظر ہوگئے،سات کڑوڑ روپے کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔پورے ہسپتال کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ اس سارے حملے میں پولیس کا کردار وہی تھا،جو گجرات حملوں میں نریندر مودی کی پولیس فورس کا تھا،وہ نہ صرف خاموش تماشائی بنے رہے،بلکہ جب ایک وزیر کو نشانہ بنایا جارہا تھا،وہ تب بھی تماشہ دیکھتے رہے۔

 میڈیا کے چند دوستوں نے وزیر صاحب کو تو بلوائیوں کے لشکر سے بچا لیا،مگر دل کا ہسپتال اور انسانیت دونوں نہ بچا سکے۔یہ واقعہ اس قدر شرمناک تھا کہ انٹرنیشنل میڈیا نے بھی اس کو کور کیا اور پاکستان کا میڈیا اس پر پھٹ پڑا۔ اس سب پر مٹی ڈالنے کے لیے وکلاء کی گرفتاریوں کا عمل شروع کیا گیا،انہیں وقتی گرفتار کرلیا گیا، مگر یہ نظام جانتا ہے کہ ان کے خلاف جیسی بھی دفعات لگائی جائیں،اتنی بڑی تعداد میں جب نظام کو مشعال بنایا جاتا ہے،تو مقدموں کی حقیقت کیا ہوتی ہے؟ پی آئی سی تو نشان ِ عبرت بن گیا،مگر کچھ سوال ہیں،جن کو مزید عبرت بننا باقی ہے۔

 
اشتعال انگیزی کے بعد،اس قدر بڑی تعداد میں پنجاب کے سب سے بڑے شہر میں ،ہسپتال پر حملہ کرنے والے وکلاء کے خلاف مقدمہ کونسا وکیل لڑے گا؟ کونسا قاضی ان کو کڑی سے کڑی سزا دے گا؟ اور اگر ایک مردہ نظام کی رگوں میں تھوڑی سی گردش باقی ہے ، اور ایسا ہو بھی جاتا ہے تو ایسا کرنے والوں کا انجام ان کی اپنی کمیونٹی میں کیا ہوگا؟ اس انجام کا خوف فیصلوں پر کس طرح اثر انداز ہوگا؟ اور اگر اس سب کے برعکس پھرسے مٹی پاؤ پالیسی اپنائی جاتی ہے،تو کل پھر کسی کی ماں کو کسی کاؤنٹر سے دوائی ملنے میں تاخیر ہوئی، تو کتنے ہسپتال مزید توڑے جائیں گے؟ ہسپتال نہیں تو ریلوے سٹیشن،ائیر پورٹ یا کوئی سکول ،کالج؟ نظام کی مفلوج زدہ حالت کی بدترین صورت بے انصافی ہے، اور جب انصاف خود کٹہروں میں کھڑا ہو توعدلِ جہانگیر کے دروازے پر لٹکی زنجیروں کو عدل کے لیے بجایا نہیں جاتا،انہیں اتارا جاتا ہے، یہ سب کینسر زدہ معاشروں کے نظریہ ضرورت کی بقا کی مجبوری ہوتا ہے،اور اس بلوائیت کا انجام بھی یہی ہوگا۔

یہ سب شاید وقتی توجیہات کا شکار ہوجائے گا،مگر آنے والے وقت اور بھیانک ہوگا۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :