عدم اعتمادکامیاب ہوگی؟

بدھ 27 جنوری 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

لاڑکانہ میں انڈسٹریل اسٹیٹ منصوبے کے افتتاح کے موقع پر بلاول بھٹوزرداری نے کہا ہم جمہوری طریقے سے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے کر آئیں گے، ہم جانتے ہیں کہ غیر جمہوری طاقتوں کو سیاست سے کیسے نکالنا ہے۔بلاول کا کہنا تھا تحریک عدم اعتماد پر پی ڈی ایم کے اتحادیوں کو بھی منائیں گے، ہمیں وار کرنا ہے تو اسمبلیوں میں کرنا ہے، حملہ کرنا ہے تو آئینی اور جمہوری طریقے سے کرنا ہے، یہ طریقہ یہی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک لائیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم اتحادیوں کو بھی تحریک عدم اعتماد پر قائل کریں گے، پھر ہماری چائے کی دعوتوں پر بھی ان کے پسینے نکلیں گے، اور اس کا جو اثر ہوگا وہ دس دس جلسوں کا بھی نہیں ہوگا۔
بلاول بھٹوزرداری کے تحریک عدم اعتمادلانے کے فیصلے پرایک خبررساں ایجنسی کیمطابق پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔

(جاری ہے)

حکومت کے خلاف متحدہ اتحاد پی ڈی ایم میں تحریک چلانے کے طریقے کار پر اختلافات کی وجہ سے بھرپور تحریک شروع ہوتے نظر نہیں آرہی۔

اختلافات اس وقت شروع ہوئے جب سابق صدرآصف علی زرداری کی جانب سے ارکان اسمبلی کے استعفوں کا بیان آیا کہ ہم بہتر جانتے ہیں استعفے کب دینے ہیں، ڈکٹیشن نہیں چاہیے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے استعفے اسمبلی میں جمع کروانے سے انکار کردیا اور بعد میں ضمنی اور سینٹ الیکشن لڑنے کا مئوقف اپنا لیا۔ مسلم لیگ ن کو یہ مئوقف ماننا پڑا مگر اب چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے فوری لانگ مارچ اور دھرنے کی بجائے اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی پیشکش کردی گئی جو جمہوری اورقانونی طریقہ کار ہے۔

رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن نے یہ تجویز مسترد کر دی ہے اور لانگ مارچ، دھرنا دینے کو بہتر حل قرار دیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی غیر جمہوری طریقے سے حکومت گرانے کے حق میں نہیں، ن لیگ اگرحکومت کے خلاف لانگ مارچ کی کال دیتی ہے تو اس کے اپنے ارکان اسمبلی کے بھی اس پر اختلافات ہیں۔ البتہ جمیعت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن ن لیگ کا ساتھ دے سکتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی اس کا حصہ نہیں بنے گی جس سے پی ڈیم ایم اتحاد خطرے میں پڑتا جارہا ہے۔


دوسری طرف یہ بھی معلوم ہواہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی، ساجد میر،عبدالمالک بلوچ، اویس احمد نورانی ان ہاؤس تبدیلی کی مخالفت کررہے ہیں جبکہ ذرائع کاکہناہے کہ اختر مینگل ،بلاول بھٹوزرداری اور بلوچستان نیشنل پارٹی اِن ہاؤس تبدیلی کے حق میں ہیں، قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد شیر پاؤ ان ہاؤس تبدیلی کے حامی ہیں۔

مسلم لیگ ن نے بلاول بھٹو زرداری کے ان ہاؤس تبدیلی کے بیان پر دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنالی۔ن لیگ کیمطابق مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف شروع دن سے ہی ان ہاؤس تبدیلی کے مخالف رہے ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا مئوقف ہے کہ طاقت ور قوتیں تحریک عدم اعتماد سے اپنی غلطی درست کرنا چاہتی ہیں، یہ قوتیں تحریک عدم اعتماد سے الیکشن درست قرار دلانا چاہتی ہیں۔

یاد رہے کہ اپوزیشن اتحاد، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، جمیعت علمائے اسلام، جمیعت علما پاکستان، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مرکزی جمیعت اہلحدیث، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، قومی وطن پارٹی پر مشتمل ہے۔
اسی طرح حکومت کامئوقف بھی سامنے آچکاہے وفاقی وزیر دفاع پرویز خان خٹک نے کہاہے کہ عوام کامینڈیٹ رکھنے والی حکومت کو گرانے کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی،پی ڈی ایم سڑکوں پر آئے یہ ان کا آئینی حق ہے،بلاول بھٹو عدم اعتماد لائیں ہم مقابلہ کریں گے اوروزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اسمبلیوں کا رخ اختیار کرنے کی بات کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی احتجاجی سیاست پر عوام نے توجہ نہیں دی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے علاقائی صورتحال اور ملکی سیاست کے حوالے سے اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم اور ہمارے حلیف تحریک عدم اعتماد کا سیاسی، جمہوری اور پارلیمانی انداز میں مقابلہ کریں گے اور انہیں شکست دیں گے، پی ڈی ایم کی صفوں میں اختلاف کھل کر سامنے آ چکا ہے، یہ ایک غیر فطری اور عارضی اتحاد ہے۔دوسری طرف اپوزیشن کی طرف سے ممکنہ عدم اعتمادلانے کے اعلان کے بعدوزیراعظم عمران خان جوپہلے اپنے اتحادیوں کولفٹ نہیں کراتے تھے اب ان کیساتھ ملاقاتوں کیلئے شیڈول بنارہے ہیں۔


اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان اِس اختلاف کی خبروں سے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد بڑے خوش ہیں اور بلاول کی بلائیں لے رہے ہیں لیکن دوسری طرف سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی کے درمیان ہونے والا پھڈا بتا رہا ہے کہ وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کو بھی اپنے لئے اتنا ہی بڑا خطرہ سمجھتی ہے جتنا بڑا خطرہ مسلم لیگ(ن)کو سمجھتی ہے لیکن عمران خان کی حکومت کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اِس حکومت کے وزرا کی کوئی ایک پالیسی نہیں۔

جب ایک گھاگ سیاستدان شیخ رشید احمد، بلاول اور مریم نواز کو آپس میں لڑانے کے لئے شاطرانہ بیان دینا شروع کر دیتے ہیں تو علی زیدی جیسے جذباتی اور غصیلے وزیر سندھ کے وزیراعلیٰ کی ایسی تیسی کرکے شیخ صاحب کی ساری گیم چوپٹ کر دیتے ہیں۔
قومی اسمبلی کی تمام 342 نشستوں کی پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح ہے قومی اسمبلی میں 4 ارکان آزاد حیثیت میں ہیں جبکہ 338 نشستیں 12 سیاسی جماعتوں کے پاس ہیں، تحریک انصاف 156 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے، ن لیگ85 نشستوں کے ساتھ دوسرے، پیپلزپارٹی 54 نشستوں کے ساتھ تیسرے، متحدہ مجلس عمل 16 نشستوں کے ساتھ چوتھے، ایم کیوایم کی 7 نشستوں کے ساتھ پانچویں نمبرپرجبکہ ق لیگ، بلوچستان عوامی پارٹی کی 5،5 نشستیں ہیں، بی این پی کی 4، جی ڈی اے کی 3 نشستیں اوراے این پی،عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی کی ایک ایک نشست ہے۔


پاکستان تحریک انصاف کی سربراہی میں حکمران اتحاد کے پاس 181 ارکان تھے۔ بی این پی کی حمایت سے محرومی کے بعد یہ تعداد 177 رہ گئی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن کی کل تعداد 160 ہے جس میں چار ارکان آزاد ہیں جو اپوزیشن کے کسی فیصلے کے پابند نہیں ہیں۔ اب دیکھنایہ ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتمادکس طرح کامیاب ہوسکتی ہے اور جوڑتوڑکے ماہرسابق صدر آصف علی زرداری کون ساخفیہ پتہ کھیلتے ہیں جس سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت خاتمہ ہوجائے اس کیلئے پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن کوبہت سے کڑوے گھونٹ بھرنے ہونگے اس کیلئے عددی اعتبار کے لحاظ سے چھوٹی پارٹیاں کافی اہمیت اختیارکرچکی ہیں،عدم اعتمادکوکامیابی میں بدلنے کیلئے ایم کیوایم اورپاکستان مسلم لیگ ق کولازمی طوراپوزیشن کواپنے ساتھ ملاناہوگاورنہ تحریک عدم اعتمادکبھی بھی کامیاب سے ہمکنارنہیں ہوسکتی ،ادھرچوہدری بردران کومسلم لیگ ن سے بہت زیادہ تحفظات ہیں وہ سوچیں گے کہ اگران کاساتھ دیاتون لیگ اقتدارمیں آنے کے بعدانہیں ٹشوپیپرکی طرح استعمال کرکے پھینک دی گی جس سے ق لیگ کی سیاسی موت واقع ہوجائیگی اورایم کیوایم کے ساتھ بھی مسلم لیگ ن کاسابقہ ریکارڈاچھانہیں ہے ،عدم اعتمادکی کامیابی کیلئے سابق صدرآصف علی زرداری کوکھل کرسیاسی میدان میں آناہوگاایم کیوایم کوسندھ کے علاوہ وفاق میں بھی 5 وزارتیں دیناہوں گی اورمسلم لیگ ق کیلئے پرانے طریقہ کارڈپٹی وزیراعظم کیساتھ پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی چوہدری پرویزالٰہی کودیناپڑے گی،اگرمتحدہ اپوزیشن ایم کیوایم اورق لیگ اورجی ڈی اے کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجاتی ہے توعددی پوزیشن کچھ اس طرح ہوگی مسلم لیگ ن 85،پیپلزپارٹی 54،متحدہ مجلس عمل 18،ایم کیوایم 7،مسلم لیگ ق5،بی این پی مینگل4،جی ڈی اے 3،اے این پی اورجمہوری وطن پارٹی کی ایک ایک نشت ہے کوملاکراپوزیشن کے پاس کل 178نشستیں ہوجائیں گی اگر 4آزادارکان بھی اپوزیشن کی حمایت کریں تویہ تعداد182تک پہنچ سکتی ہے اس سب کادارومدارسابق صدرآصف علی زرداری پر ہے کیونکہ ایم کیوایم ،ق لیگ اورجی ڈی اے کواہم وزارتوں کیساتھ گارنٹی بھی چاہئے ہوگی ن لیگ اورمولانافضل الرحمن پرکوئی بھی پارٹی اعتمادکرنے کوتیارنہیں ہوگی ۔

حکومت اوراپوزیشن دونوں کیلئے امتحان ہے کہ حکومت کیسے اپنے اتحادی اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے جبکہ اپوزیشن اورخاص طورجوڑتوڑکی سیاست کے ماہرسابق صدرآصف علی زرداری کیا کرتے ہیں یہ توآنے والاوقت ہی بتائے گاکہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :