مغربی تہذیب کاسیاہ چہرہ

ہفتہ 10 جولائی 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

افراد اور قوموں کی اپنی کوئی نہ کوئی تہذیب ہوتی ہے جس سے ان کی بہت گہری وابستگی ہوتی ہے۔ تہذیبوں کا مذہب یا اجتماعی نظام سے بھی بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس لیے کہیں کہیں تہذیب سے مذہب سے بھی بڑھ کر جذباتی تعلق ہوتا ہے،ہمارے روشن خیال لوگ مغربی معاشرے کی انسان دوستی ،انصاف وقانون کی بالادستی کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اورمغرب کومہذب معاشرہ ثابت کرنے کیلئے زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہوئے ہیں لیکن ان روشن خیالوں نے کبھی بھی تاریخ کے اوراق پلٹ کرنہیں دیکھے کہ وہ جس تہذیب کے گرویدہ انہوں نے ماضی میں کتنے مظالم ڈھائے اورکتنے بیگناہوں کوپلک جھپکتے ہی موت کی ابدی نیندسلادیااورکتنے لوگوں اپاہج بنایا ،یہ 13 اپریل 1919 کی بات ہے جب جلیانوالہ باغ میں انگریزوں نے قتلِ عام کیا، جسے امرتسر قتلِ عام بھی کہا جاتا ہے،جب پرامن احتجاجی مظاہرے پر برطانوی ہندوستانی فوج نے جنرل ڈائر کے احکامات پر گولیاں برسا دیں۔

(جاری ہے)

اس مظاہرے میں بیساکھی کے شرکا بھی شامل تھے جو پنجاب کے ضلع امرتسر میں جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے تھے۔ یہ افراد بیساکھی کے میلے میں شریک ہوئے تھے جوسکھوں کا ثقافتی اور مذہبی اہمیت کا تہوار ہے۔ بیساکھی کے شرکا بیرون شہر سے آئے تھے اور انہیں علم بھی نہیں تھا کہ شہر میں مارشل لا نافذ ہے۔اتوارکے دن جنرل ڈائر کو بغاوت کا پتہ چلا تو اس نے ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی لگا دی مگر لوگوں نے اس پر زیادہ کان نہ دھرے۔

چونکہ بیساکھی کا دن سکھ مذہب کے لیے مذہبی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے آس پاس کے دیہاتوں کے لوگ باغ میں جمع ہو گئے تھے۔ جب جنرل ڈائر کو باغ میں ہونے والے اجتماع کا پتہ چلا تو اس نے فورا پچاس گورکھے فوجی اپنے ساتھ لیے اور باغ کے کنارے ایک اونچی جگہ انہیں تعینات کر کے مجمعے پر گولی چلانے کا حکم دیا۔ دس منٹ تک گولیاں چلتی رہیں حتی کہ گولیاں تقریبا ختم ہو گئیں۔

جنرل ڈائر نے بیان دیا کہ کل 1650 گولیاں چلائی گئیں۔ شاید یہ عدد فوجیوں کی طرف سے جمع کیے گئے گولیوں کے خولوں کی گنتی سے آیا ہوگا۔ برطانوی ہندوستانی اہلکاروں کے مطابق 379 کو مردہ اور تقریبا 1100 کو زخمی قرار دیا گیا۔ انڈین نیشنل کانگریس کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد اندازہ 1000 اور زخمیوں کی تعداد 1500 کے لگ بھگ تھی۔ گذشتہ ایک سال میں دنیا بھر میں نسلی ناانصافی کے خلاف مظاہروں میں مظاہرین کی طرف سے سلطنت ، استعمار اور غلامی کی علامتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

یہ مظاہرے مئی 2020 میں افریقی نژاد امریکی شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد دنیا بھر میں پھٹ پڑے۔اس طرح دنیاکے مختلف ممالک میں ظلم،جبراورناانصافیوں پراحتجاجوں کالامتناہی سلسلہ جاری ہے ، کینیڈا میں بچوں کی باقیات برآمد ہونے کے معاملے پر احتجاج کرنے والے پرتشدد مظاہرین نے ملکہ وکٹوریہ اور ملکہ الزبتھ دوم کے مجسمے گرادیے۔بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق کینیڈا میں برآمد ہونے والی سیکڑوں بچوں کی باقیات برآمد ہونے کے معاملے پر سڑکوں پر نکلنے والے نارنجی شرٹ پہنے مظاہرین نے احتجاجی ریلی نکالی۔

وینیپیگ میں نکلنے والی ریلی میں سیکڑوں افراد شریک تھے جنہوں نے ایک چوک پر پہنچنے کے بعد وہاں نصب ملکہ وکٹوریہ اور ملکہ الزبتھ دوم کے مجسموں کی طرف پیش قدمی کی۔ریلی میں شامل چند مشتعل مظاہرین چبوترے پر چڑھے اور انہوں نے پہلے ملکہ وکٹوریہ پھر ملکہ الزبتھ دوم کے مجسمے کو زمین پر گرادیا۔ملکہ وکٹوریہ اور ملکہ الزبتھ دوم کے مجسموں کو گرانے کے بعد شہریوں کا غصہ مزید بڑھ گیا، مشتعل افراد نے مجسمے گرانے کے بعد نسل کشی پر فخر نہیں کا نعرہ بھی لگایا۔

کینیڈین میڈیا کے مطابق یہ معاملہ ایک روز قبل اس وقت پیش آیا جب روایتی طور پر ملک بھر میں سرکاری سطح پر جشن منایا جانا تھا تاہم بچوں کی باقیات ملنے کے بعد اسے منسوخ کردیا گیا۔ بچوں کی باقیات ملنے پر دارالحکومت سمیت دیگر شہروں میں بھی مظاہرین سڑکوں پر آئے اور انہوں نے حکومت سے واقعات کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔واضح رہے کہ کینیڈا میں گذشتہ دنوں اجتماعی قبروں سے ایک ہزارسے زائد قبائلی بچوں کی باقیات دریافت ہوئیں تھیں جبکہ اس سے قبل مقامی رہائشی اسکول میں 215 بچوں کی باقیات پر مشتمل ایک اجتماعی قبر ملی تھی۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق اس اسکول کو 1978 میں بند کردیا گیا ہے، جن کی باقیات ملیں وہ برٹش کولمبیا کے کیملوپس انڈین رہایشی اسکول کے طالب علم تھے۔غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کینیڈا کے قدیم مقامی باشندوں کے قبائل میں سے ایک رہنما نے بتایا کہ برٹش کولمبیا میں قدیمی باشندوں کے بچوں کے لیے قائم ایک سابقہ مشنری اسکول کے قریب سے مزید 182 قبریں دریافت ہوئی ہیں۔

لوئر کوٹینے ہینڈ نے بتایا کہ کرین بروک کے قریب سابقہ سینٹ یوجینز مشن اسکول کے پاس سے لاشیں برآمد ہوئیں۔کمیونٹی کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ یہ اسکول 1913 سے 1970 تک چلتا رہا اور 2020 میں یہاں تلاش شروع کی گئی تھی۔کینیڈا کے صوبے سسکاچیوان میں پرانے اسکول کی سائٹ سے 751 نامعلوم قبریں دریافت کی گئی ہیں۔اسی طرح ایک اورغیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کینیڈا کی ریاست سسکاچیوان کے شہرریجینا سے تقریبا 140 کلومیٹر دورایک سابق بورڈنگ اسکول میں قبریں دریافت ہوئی ہیں جن میں سینکڑوں قبائلی بچوں کی لاشیں دفن ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ جگہ رومن کیتھولک چرچ کے زیر انتظام تھی، تمام قبریں بچوں کی ہیں یا بالغ افراد کی ہیں اس بارے میں تاحال تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔واضح رہے کہ 1863 سے 1998 تک کینیڈا میں حکومت اورمذہبی حکام کے ذریعے چلائے جانے والے بورڈنگ اسکول میں قدیم مقامی نسل سے تعلق رکھنے والے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بچوں کووالدین سے زبردستی علیحدہ رکھ کر نئی زبان اور جدید ثقافت اپنانے پر مجبور کیا جاتا تھا۔

ان بچوں کو اکثر اپنی زبان بولنے یا اپنی ثقافت پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور ان میں سے بہت سوں کے ساتھ بدسلوکی اور زیادتی کی جاتی تھی۔ 2008 میں اس نظام کے اثرات کو جاننے کے لیے قائم کردہ کمیشن کو معلوم ہوا کہ مقامی بچوں کی بڑی تعداد کبھی بھی اپنے گھروں اور اپنی برادریوں میں واپس نہیں آئی۔ 2015 میں جاری کی گئی تاریخی 'ٹرتھ اینڈ ریکنسلیشن رپورٹ' میں کہا گیا کہ یہ پالیسی 'ثقافتی نسل کشی' کے مترادف تھی۔

کینیڈا کے مختلف شہروں میں، چرچوں کی نگرانی میں چلنے والے بورڈنگ اسکولوں میں مقامی بچوں کی کئی اجتماعی قبروں کے انکشاف کے بعد، متعدد کلیساؤں کو نذر آتش کر دیا گیا ہے۔غیرملکی نیوزایجنسی کے مطابق ذرائع کاکہناہے کہ ان قدیم چرچوں بورڈنگ اسکول میں قدیم مقامی نسل سے تعلق رکھنے والے بچوں سے متعلق ریکارڈموجود ہے اس لئے منظم طریقے سے ریکارڈ کوتحقیات کرنے والوں اداروں کے ہاتھ لگنے سے بچانے کیلئے کلیساؤں کو آگ لگائی جارہی ہے اور اس کا الزام احتجاج کرنے والوں پرلگایاجارہاہے ۔

سوچنے کی بات ہے اگرخدانخواستہ یہ قبریں کسی مسلم ملک کے تعلیمی ادارے سے ملتی توتحقیقات سے قبل ہی اسے اسلامی دہشت گردی قراردیاگیاہوتا،اب یہ قبریں مغرب کے مہذب معاشرے سے تعلق رکھنے والے ملک کینیڈاجوکہ برطانوی کالونی ہے کیتھولک عیسائی چرچوں کے زیرانتظام چلائے جانے والے سکولوں سے ملی ہیں ،اگراسے مغرب کے پیمانے سے ماپاجائے تو اسے لازی طورپر کیتھولک عیسائی دہشت گردی کہناچاہئے اوراس سے بڑھ کر تعجب کی بات تو یہ ہے کہ مسلمان جب اپنے حق کی حصول کے لیے کھڑا ہو تو انھیں دہشت گرد کہنے میں اور ثابت کرنے میں جھوٹ اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں کہ مذہب اسلام کو دہشت گردی کا مذہب قرار دیتے ہیں، جبکہ اسلام مخالف طاقتیں ہر روز کہیں نہ کہیں بے چارے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کرکے ناحق انکا خون بہاتے ہیں، اور بلا وجہ ان کو شہید کردیتے ہیں، محض اس وجہ سے کہ وہ مسلمان ہیں، انھیں کوئی عیسائی دہشت گرد، یہودی دہشت گرد،اورہندو دہشت گردنہیں کہتا، انھیں کبھی تو دماغی معذور بنا کر،اور کبھی تو یہ کہہ کر پیش کیا جاتا ہے کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتااور ا ن کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے حتی کہ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیاپر پابندی لگا دی جاتی ہے مظالم پر آوازاٹھانے والوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بلاک کردئے جاتے ہیں تا کہ ا ن مظالم کی ویڈیوزوائرل نہ ہوسکیں ،یہ ہے مغرب کی سیاہ تہذیب جو انسانیت کی سب سے بڑی دشمن ہے لیکن خوبصورت سلوگن کی وجہ دنیاسے اوجھل ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :