امریکی افغان ایجنٹ تاریک منزل کے راہی

جمعہ 23 جولائی 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد افغان گورنمنٹ صرف کابل تک محدودہوچکی ہے ،اس دوران عسکری لحاظ سے اہم علاقوں پر طالبان کا قبضہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔افغان طالبان ملک کے 85فیصد سے زائد حصے پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں،اس وقت غداران وطن اورامریکی ایجنٹوں کاکوئی مستقبل دکھائی نہیں دے رہاہے،طالبان کی طرف سے عام معافی کے اعلان کے باوجود ان لوگوں کوخدشات لاحق ہیں اور مادرپدرآزادخیال امریکی ایجنٹوں کااسلامی حکومت میں یہاں رہناناممکن ہے کیونکہ یہ اپنی حرکتوں سے بازنہیں آئیں گے ،غداروں کو طالبان کبھی بھی نہیں چھوڑیں گے اورانہیں سخت سزاؤں کاسامناکرناپڑے گا۔

آنے والے وقت اورحالات کودیکھتے ہوئے امریکہ نواز افغانوں کوجیتے جاگتے موت دکھائی دے رہی ہے اور اس وقت وہ حالات اورامریکہ کے رحم وکرم پر ہیں کہ امریکہ ان کے بارے میں کیاپالیسی بناتاہے۔

(جاری ہے)

اسی اثنا میں امریکی انتظامیہ نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ وہ افغانستان میں بیس سالہ جنگ کے دوران امریکی افواج کی مدد کرنے والے افغان مترجمین کو ملک سے نکال کر لے جانے کے لیے تیار ہے، تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان افراد کی منزل کیا ہوگی اور انہیں پروازوں تک محفوظ طور پر پہنچنے کو کس طرح یقینی بنایا جائے گا۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈپریس (اے پی) کے مطابق وائٹ ہاوس نے بتایا کہ 'آپریشن الائیز ریفیوج کے نام سے یہ مشن جولائی کے آخری ہفتے میں شروع ہوگا اور سب سے پہلے ان افغان شہریوں کو افغانستان سے باہر لے جایا جائے گا جو پہلے ہی امریکا میں رہائش کی درخواست دے چکے ہیں۔وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے تاہم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان افراد کی تعداد اور دیگر تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا،جنہیں پہلی پروازوں سے افغانستان سے دوسری جگہ منتقل کیا جائے گا۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا انہیں کسی تیسرے ملک بھی منتقل کیا جا سکتا ہے جس میں امریکا کا ایک علاقہ گوام بھی شامل ہے، جین ساکی کا کہنا تھا،میں نہ تو اس کی تصدیق کر سکتی ہوں اور نہ ہی اس سے انکار کر سکتی ہوں۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ جن لوگوں کو افغانستان سے نکالا جا رہا ہے، ان کی سکیورٹی ہمارے لیے سب سے اہم ہے اور ہم اس پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

امریکی فوج کی مدد کرنے والے افغان مترجمین کو افغانستان سے نکالنے کے لیے پروازو ں کی تصدیق ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز جنرل آسٹن اسکاٹ ملر سے ملاقات کی۔ جنرل اسکاٹ ملر رواں ہفتے ہی افغانستان میں امریکا کے اعلی ترین سابق فوجی کمانڈر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں۔جنرل ا سکاٹ ملر تین سال تک افغانستان میں امریکی افواج کی جنگی سرگرمیوں کے نگراں رہے۔

انہوں نے اپنی کمانڈ کے آخری دنوں میں افغانستان کے کئی اضلاع کے طالبان کے قبضے میں جانے پر تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو ملک میں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی کا خدشہ دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق کابل میں موجود امریکی سفارت خانے نے مارچ میں 299 خصوصی امیگرنٹس ویزے جاری کیے تھے جبکہ اپریل میں یہ تعداد 356 اور مئی میں 619 رہی تھی۔

گذشتہ ہفتے امریکی صدر بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ امریکی حکومت ان کی حلف برداری سے اب تک 2500 خصوصی امیگرنٹس ویزوں کی منظوری دے چکی ہے۔
اس وقت تک امریکیوں کے لیے بطور مترجمین، ڈرائیورز اور دیگر خدمات فراہم کرنے والے 18 ہزار شہری امریکی ویزوں کے لیے درخواستیں جمع کروا چکے ہیں اور اپنی درخواستوں کے منظور ہونے کے منتظر ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کسی ایسے ملک یا خطے کی نشاندہی کرنے کے لیے بھی کام کر رہی ہے جہاں ان افراد کو ویزے جاری ہونے تک رکھا جا سکے۔

افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے لیے مترجم اور دیگر شعبوں میں خدمات سر انجام دینے والوں نے کابل میں گذشتہ دنوں مظاہرے کیے تھے اور کہا تھا کہ بین الاقوامی فورسز کے انخلا ء کے بعد وہ اور ان کے خاندان طالبان کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ انہیں پہلے ہی جان سے مار دینے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں امیگریشن دے کر امریکہ منتقل کیا جائے۔

تاہم طالبان نے کہا تھا کہ وہ ان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کریں گے۔
چونکہ طالبان نے تاجکستان ، ایران اور پاکستان سے متصل سرحدی چوکیوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے لہذا ان وفاداروں کو عبوری طور پر وسط ایشیا کی تین ریاستوں اور بحرالکاہل میں جزیرہ گوام کے امریکی اڈے تک بذریعہ کابل ائرپورٹ منتقل کیا جائے گا۔تاکہ امیگریشن ویزے کی شرائط کے تحت ان کے افغانی و خاندانی پس منظر کی دستاویزی چھان پھٹک مکمل ہونے تک کسی جانی نقصان سے محفوظ رکھا جا سکے۔

اسی طرح طالبان نے بھی غیرملکی افواج کی ملازمت کرنے والے افغانوں کو پیش کش کی ہے کہ وہ ملک چھوڑنے کے بجائے خود پیش ہو کر تائب ہو جائیں تو انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ انھیں کب تک اور کس کے سامنے پیش ہو کر اظہار پشیمانی دکھانا ہے۔ دریں اثنا بدھ کے روز تقریبا 350 افغان شہری طالبان کے حملوں سے بچنے کے لیے شمالی افغانستان سے تاجکستان بھاگ گئے۔ ان میں بیشتر خواتین ہیں۔اس وقت امریکیوں کیلئے کام کرنے والے افغانوں کامستقبل تاریک ہوچکاہے اوروہ تاریک منزل کے ایسے راہی بن چکے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ دنیا میں ان کاٹھکانہ کہاں ہے اورانہیں کن حالات کاسامناکرناپڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :