استادکے روپ میں چھپے بھیڑیے

ہفتہ 9 اکتوبر 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

آج سے تین سال قبل پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی سربراہ حکومت وزیراعظم عمران خان نے کہاتھاکہ ہم پاکستان کوریاست مدینہ بنائیں گے ۔ہم خوش تھے کہ کسی نے تو مملکت خداد پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی بات کی ہے، ۔ لیکن اس خوشی میں ہم ریاست مدینہ بنانے والوں سے یہ سوال کرنابھول گئے تھے کہ یہ ریاست مدینہ ظہور اسلام سے پہلے کی بنے گی یا بعد کی؟ ظہور اسلام سے پہلے کے عرب میں بھی وہ کچھ نہ ہوتا ہو گا جو گذشتہ چندسالوں میں پاکستان کی ریاست مدینہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔

اگرمیڈیانہ ہوتاتوہمیں شایدہی معلوم ہوتاکہ اکتوبر 2019ء میں یونیورسٹی آف بلوچستان میں طالبات کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کا معاملہ کیاتھااور کس طرح ایک غیرمتعلقہ شخص کوسیکیورٹی کیمروں تک رسائی دی گئی اورکیسے خفیہ جگہوں پرکیمرے نصب کئے گئے اوران سی سی ٹی وی کیمروں کوغلط استعمال کرکے طالبات ہراساں کیاجاتاتھا،اسی طرح دسمبر 2019ء میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی( نسَٹ)کی ایک طالبہ کے مبینہ ریپ کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی ر ہیں تاہم اس کے بعد یونیورسٹی کی جانب سے ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں طالبہ کے مبینہ ریپ کی خبر کو مکمل طور پر رد کیا گیا۔

(جاری ہے)

یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے استعمال ہونے والے الفاظ پر بھی خاصی تنقید کی گئی ،طلباء نے یہ بھی پوچھا کہ یونیورسٹی کی جانب سے تفتیشی عمل کب اور کیسے مکمل کیا گیا اور اس کے نتائج کیا نکلے ؟ لیکن یونیورسٹی نے اس حوالے سے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
اسی طرح ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور کے علاقے غالب مارکیٹ میں قائم لاہور گرائمر اسکول (ایل جی اسی1 )اے 1 برانچ نے 8 طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور انہیں نازیبا تصاویر بھیجنے کے الزام میں اساتذہ کو نوکری سے فارغ کیا ،کچھ طالبات نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بات کی تھی جو منظر عام پر آنے کے بعد مزید طالبات آگے آئیں اور انہی اساتذہ کے حوالے سے اپنی آپ بیتی سے آگاہ کیا جبکہ دیگر اسکولوں کی طالبات نے بھی اس قسم کی شکایات کیں جس سے ظاہر ہوتا ہے اسکولوں میں ہراسانی کس طرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔

جن اساتذہ پر الزامات لگائے گئے ان میں سے ایک کی نجی تصاویر کے اسکرین شاٹس بھی شیئر کیے گئے تھے اور وہ طلبہ کو اسکول مباحثہ اور سیاست پڑھاتے تھے۔رپورٹس کے مطابق وہ تقریبا 4 سالوں سے نوجوان لڑکیوں کو اس قسم کی تصاویر اور تحریری پیغامات بھیج رہے تھے اور اسکول کی تقریبا ہر شاخ کی طالبات کی جانب سے ان پر الزام لگایا گیا۔
ملک پاکستان میں ان گنت درس گاہوں میں آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔

تین سال قبل کراچی کے ایک معروف سکول میں ایسی ہی داستان سامنے آئی ۔ گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسمعیل خان میں صدر شعبہ علومِ اسلامی رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اساتذہ کا شرمناک کردار بھی میڈیا کی زینت بنا ۔اسی طرح رواں ہفتے ڈیرہ غازی خان میں واقع نجی زہرا اکیڈمی میں شہرکی بچیوں کی تعلیم کے نام پر جسمانی استحصال کے ساتھ ان کی ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنے کا انکشاف ہوا ہے،ذرائع کے مطابق پرنسپل جاوید اور مجاہدسانگھی نامی ٹیچر لڑکیوں کو جسمانی ہراساں کرتے ہوئے ان کی ویڈیو بھی ریکارڈ کر کے انہیں بلیک میل کرتے تھے، اس جرم کا انکشاف اس وقت ہوا جب ڈیرہ غازی خان میں طالبات کے ساتھ فحش حرکات کی ویڈیوز بنانے والے اساتذہ نے بچیوں کوالٹا بلیک میل کرنا شروع کیاادھر والدین اوردیگر معاشرتی شخصیات نے کہا ہے کہ الزاہرااکیڈمی کے نام سے درسگاہ کو لڑکیوں اور خواتین کے جسمانی استحصال کے لئے استعمال کیا جانے لگاہے جس نے ہمارے لیے ہماری بچیوں کی تعلیم کوبہت مشکل بنا دیا ہے ادھر ذرائع کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ اکیڈمی میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کی ویڈیو سمیت دیگر ویڈیو بھی وائرل ہوئیں ادھر اس حوالے سے ورثا اوردیگر معاشرے کے افراد نے ضلعی انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ اس مافیا کو فی الفور گرفتار کرکے سخت سے سخت سزا دی جائے اور دیگر اکیڈمیوں کی فل نگرانی کی جائے تاکہ تعلیم کے حصول کے لیے آنے والی بچیاں محفوظ رہ سکیں ایسے درندوں کو نشان عبرت بنایا جائے ۔

ویڈیو وائرل ہونے کا معاملہ پر آر پی او ڈیرہ غازیخان پولیس فیصل رانا کے مکمل فوکس کی وجہ سے 3ملزمان جاوید،مجاہد اور اسامہ کے نام سے شناخت کر لیا گیا ملزمان کیخلاف پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیاہے۔ ملزمان میں سے مرکزی ملزم جاوید اختر کو گرفتار کر لیا ،جو ایک بازو سے معذور ہے ۔اس کا یہ بازو ایک حادثہ میں ضائع ہو گیا تھا،اس حوالے سے ڈی پی او ڈی جی خان عمر سعید نے آر پی او فیصل رانا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گرفتار ملزم جاوید یہ اکیڈمی 2012 سے2019 تک چلاتا رہا ہے، کورونا کی وجہ سے اکیڈمی بند ہو گئی،ڈی پی او نے بتایا کہ گرفتار ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ اسکے دوست مجاہد،اسامہ ،حبیب عورتیں لاتے تھے اکیڈمی کے گراونڈ فلور پر عورتوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی۔

ذرائع کے مطابق ڈیرہ غازی خان اکیڈمی ویڈیو سکینڈل کا مرکزی کردار رفیق خٹک جس کی دو شادیاں ہیں یہ بندہ سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد غائب ہوگیا ہے جس کی شروع سے پلاننگ تھی کہ اکیڈمی کے نام پر یہاں عیاشی کریں گے کیمرے لگانے والا یہی شخص ہے اور کسی بھی ویڈیو میں اس کا کردار نہیں دکھایا گیا ہے کیوں کہ اس نے خود کیمرہ لگایا تھا اور اس نے اپنی ویڈیو ڈیلیٹ کردی اور باقی کو ایک دوسرے کو بھیجتے رہے اور لڑکیوں کو بلیک میل کرتے رہے ،یہ ویڈیو لگ بھگ سال پرانی ہیں یہ لوگ اکیڈمی پڑھنے کیلئے آنے والی لڑکیوں اور ٹیچرز کو اپنی حوس کا نشانہ بناتے تھے بتایاگیاہے کہ اس سکینڈل کی 30 کے قریب قابل اعتراض ویڈیوز ہیں جو اخلاقی طور پر شیئر نہیں کی جاسکتی ،رفیق خٹک کے متعلق سوشل میڈیاپر تصاویر گردش کررہی ہیں جس میں حکومتی پارٹی کے ایک ایم پی اے کیساتھ ہرجگہ موجود ہے،یہ بھی ذرائع سے معلوم ہواہے کہ رفیق خٹک کے ایک بیٹے کوپولیس نے گرفتارکیا لیکن مذکورہ ایم پی اے کے دباؤ کی وجہ سے پولیس نے اسے چھوڑدیا اسی طرح چونکادینے والاانکشاف ہواہے کہ الزہرااکیڈمی ویڈیوسکینڈل میں اکیڈمی کی عمارت کے مالک رفیق خٹک نے درحقیقت خفیہ کیمرے خودلگوائے تھے،یہ شخص طالبات کوبلیک میل کرتارہااوراکیڈمی میں خودبھی اپنامنہ کالاکرتارہامگرساتھ ہی اپنی ویڈیوز ڈیلیٹ کرتارہا،ذرائع کاکہناہے کہ ویڈیولیک ہونے کے بعدبھی معاملے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ،اکیڈمی پرنسپل سے پہلے پانچ لاکھ روپے اوربعدازاں تین لاکھ روپے میں معاملہ طے کرنے کی ناکام کوشش کے انکشافات بھی منظرعام پرآچکے ہیں،ذرائع سے یہ بھی معلوم ہواہے کہ مبینہ طوریہ ویڈیوزایک صحافی کے ذریعے فیک سوشل میڈیااکاؤنٹ سے اپ لوڈ کرائی گئیں،بتایاجاتاہے کہ صحافی اس رفیق خٹک کاقریبی رشتہ داراوررازدان ہے ۔

اس سیکنڈل کادوسرامرکزی کردارمجاہد سانگھی یہ شخص سرکاری سکول کا ٹیچر ہے ، مبینہ طور پر اس کی ایک ساتھی لڑکی جو ایک انشورنس کمپنی میں سیلز آفیسر ہیں اوراس کے علاوہ مجاہد سانگھی پراپرٹی کا کام بھی کرتا ہے ۔اور انویسٹرز کو اس لڑکی کے ذریعہ ورغلاتا ہے اور یہاں پر یہ انشورنس والے گاہک بھی پھنسا کر لاتی تھی اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد آر پی او فیصل رانا نے اس کا نوٹس لیا اور تین لوگوں مجاہد سانگھی،جاوید اور اسامہ اعوان پر مقدمہ درج کر لیا گیا اور تین نامعلوم افراد کو اس میں شامل کیا گیا۔

مجاہد سانگھی کے بارے میں معلوم ہواہے کہ اس کا چھوٹا بھائی طیب سانگھی اے ایس آئی تھانہ صدر تونسہ میں تعینات ہے اورمبینہ طور ذرائع کاکہناہے کہ مجاہد سانگھی کواس کے بھائی نے تونسہ میں چھپارکھا ہے ۔ آرپی اوفیصل رانا کی مسلسل آبزرویشن اور ڈی پی او عمر سعید ملک کی ہدایات کی روشنی میں قائم مقام نوجوان ایس ایچ او ساجد مرتضی بدنام زمانہ الزہرہ اکیڈمی سیکنڈل کے مقدمہ میں نامزد ملزم جاوید کو مختصر نوٹس پر گرفتار کرکے پابند سلاسل کیااس سے شہریوں اوربچیوں کے والدین کو امیدپیداہوگئی ہے کہ پولیس اگرکسی مصلحت کاشکارنہ ہوئی تو استاد کے روپ میں چھپے ان معاشرتی بھیڑیوں کوکیفرکردارتک پہنچانے میں کامیاب ہوجائے گی۔


دوسری طرف ہمارا نظام تعلیم زوال کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔مرد اساتذہ کی طرف سے گریڈز اور نمبروں کے نام پر طالبات کا استحصال ایک کھلی حقیقت ہے جس کا اظہار وقتاََفوقتاََمختلف فورمز پر ہوتا رہتا ہے۔ زیادہ تر واقعات پر طالبات بیچاری خاموشی میں عافیت سمجھتی ہیں ۔ اگر کوئی اظہار کی جرات کر بیٹھے تو ایسے میں موردِ الزام شکایت کنندگان ہی کو ٹھہرایا جاتاہے یا پھر کمیٹیاں بناکر معاملہ فائلوں کی نذر کردیا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ کوئی فرضی سی کارروائی کر کے متاثرہ فریق کامنہ بند کر دیاجاتاہے۔

مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے اساتذہ اور منتظمین کڑے وقت میں ایک دوسرے کے خوب کام آتے ہیں ۔ بھلا اس طرح کے جرائم باہمی گٹھ جوڑ کے بغیر کیوں کر رونما ہوسکتے ہیں؟
دیکھا جائے تو معاشروں کوبنانے اور سنوارنے میں اہم ترین کردار استاد کا ہوتا ہے ۔ ہماری مشرقی روایت میں اساتذہ کرام انتہائی معتبر مقام کے حامل تھے۔ لیکن آج کے اس مشینی دور نے جہاں اور بہت سی روایات کا جنازہ نکالا ہے ، وہیں اساتذہ کا کردار بھی اب پہلے جیسا نہیں رہا ۔جب رہزن رہنما ہوجائیں، امین خائن بن جائیں، مسیحا اپنا کردار بھول کر شیطانیت کا روپ دھارلیں اور جن پہ تکیہ ہو وہی پتے ہوا دینے لگیں تو معاشروں کابننا اور سنورنا تو دور کی بات، تباہی اور بربادی مقدر ہوجاتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :