کافی عرصے سے قومی احتساب بیورو (نیب)بھرپور طریقے سے ہمارے سیاسی اور صحافتی منظرنامے پر چھایا ہوا ہے۔ آج کل بھی یہی صورتحال ہے۔ تاہم اس مرتبہ موضوع بحث کوئی سیاستدان، بیوروکریٹ، صنعتکار یا ہتھکڑیوں میں جکڑا نہتا پروفیسر نہیں۔۔۔۔اس دفعہ تمام تر توجہ کا مرکز و محور خود چےئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال ہیں۔
پہلے انہوں نے ایک معروف کالم نگار سے ملاقات کی اور ایسی باتیں کہیں جن کی وجہ سے وہ تنقید اور تنازعات کی زد میں رہے۔
اسکے بعد چےئرمین نیب کی ایک مبینہ آڈیو اور وڈیو ٹیپ منظر عام پر آئی، جس میں وہ ایک خاتون سے محو گفتگو ہیں۔ اس ٹیپ کی بنیاد پر ان کی پر ذات پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ چےئرمین نیب کی کالم نگار سے ہونے والی ملاقات اور خاتون کیساتھ کی جانے والی گفتگو کے سچ یا جھوٹ ہونے کی بحث سے قطع نظر،محسوس یہ ہونے لگا ہے کہ اب نیب اپنے منطقی انجام سے دوچار ہونے والا ہے۔
(جاری ہے)
نیب کی جانبداری کے حوالے سے سیاستدانوں، کاروباری طبقے، اور سرکاری افسران کی طرف سے مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے اسکی ساکھ بری طرح مجروع ہو ئی ہے۔ ویسے نیب کی ساکھ رروز اول سے ہی متنازعہ تھی۔ 12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف نے جمہوریت پر شب خون مارا اور اسکے ٹھیک ایک ماہ بعد (16 نومبرکو) اس ادارے کوقائم ہوگیا۔ سب جانتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے اسے سیاسی جوڑ توڑ کے لئے استعمال کیا۔
نیب نے سیاسی جماعتوں کو توڑنے اور سیاستدانوں کی وفاداریوں کو تبدیل کرنے کے لئے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔
پیپلز پارٹی کو توڑ کر ،پی پی پی۔پیٹریاٹس گروپ بنانا نیب کاہی کارنامہ تھا ۔ لیکن اسکے باوجود میر ظفر اللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی برتری سے وزیر اعظم منتخب ہو سکے۔ مشرف دور سے اب تک یہ ادارہ تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔ شاید ہی کسی طبقے نے اس پر اعتماد یا اطمنان کا اظہار کیا ہو۔
البتہ جتنا متنازعہ اور بدنام یہ ادارہ اب ہو چکا ہے ، دور آمریت میں بھی نہیں تھا۔
صاف دکھائی دینے لگا ہے کہ نیب کا شکنجہ دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے گرد کسا ہوا ہے۔ دونوں جماعتیں نیب سے سخت نالاں ہیں۔ مشرف دور آمریت میں، جلا وطن محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے۔
اس میثاق کی ایک شق یہ تھی کہ برسر اقتدار آنے کے بعد احتساب کا ایک شفاف، غیر جانبدار اور خود مختار نظام قائم کیا جائے گا۔ اپنے دس سالہ ادوار حکومت میں مگر دونوں جماعتوں نے اس شق پر عمل درآمد سے تغافل برتا۔ اس غفلت کا نتیجہ بھی اب یہ دونوں جماعتیں بھگت رہی ہیں۔ اگرچہ نیب پر تنقید ہوتی ہے کہ وہ موجودہ حکومتی اراکین کے بیشتر کیسز سے صرف نظر کرتا ہے۔
اسکے با وجود تحریک انصاف بھی اس کی کارکردگی سے پوری طرح مطمین نہیں۔
حال ہی میں تحریک انصاف کے سینئر رہنما علیم خان ضمانت پر نیب سے رہا ہوئے تو انہوں نے نیب پر کڑی تنقید کی۔کہا کہ نیب کو تحقیقات کیے بغیر، کسی شخص کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ علیم خان نے نیب قوانین میں تبدیلی کیلئے حکومت سے بات کرنے کا عندیہ د یا ہے۔
نیب نے جب عمران خان کو خیبر پختونخواہ حکومت کے سرکاری ہیلی کاپٹر کو اپنے ذاتی استعمال سے متعلق کیس میں طلب کیا تھا، تب بطور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نیب پر گرجتے برستے رہے ۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے اس وقت شدید غم و غصہ کا اظہار کیا تھا، جب نیب نے خیبر پختونخواہ کے ڈائریکٹر آرکیالوجی اینڈ میوزیمز ڈاکٹر عبد الصمد کو گرفتار کیا تھا۔
اپنے ٹویٹ میں عمران خان نے چےئرمین نیب سے مطالبہ کیا تھا کہ اس شرمناک عمل(گرفتاری) کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی جائے۔2014 میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے خیبر پختونخواہ میں جو احتساب کمیشن بنایا تھا وہ بھی نیب پر عدم اعتماد کا ہی شاخسانہ تھا۔(وہ الگ بات کی تحریک انصاف کی حکومت نے بوجوہ اس احتسا ب کمیشن پر تالے ڈالے رکھے)۔
ملک کی اعلیٰ عدلیہ بھی نیب کی کارکرگی اور کارروائیوں پر تنقید کرتی رہی ہے۔
بطور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واضح طور پر کہا تھا کہ" نیب کی غفلت اور کوتاہیوں کی قیمت عدالتوں کو ادا کرنا پڑتی ہے"۔سابق چیف جسٹس نے اس بات پر بھی نیب کی سرزنش کی تھی کہ جب کسی کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جاتا ہے، تو نیب کے بلاوے(سمن) کی میڈیا پر تشہیر کیوں کی جاتی ہے؟ انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ" نیب کسی شخص کو بدنام کرنے کا قطعا کوئی حق نہیں رکھتا"۔
سپریم کورٹ کے ایک دوسرے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے تو یہاں تک کہہ ڈالا تھا کہ" نیب میں کالی بھیڑیں موجود ہیں"۔ سمجھ سے بالا ترہے کہ ایک ایسا ادارہ جس سے اعلیٰ عدلیہ مطمین ہے,نہ سیاستدان ۔ سرکاری افسران مطمین ہیں نہ کاروباری طبقہ ۔ اسکے با وجود آمر کی اس نشانی کو سنبھال رکھنے کا کیا جواز باقی ہے؟
تاریخ کا سبق یہی ہے کہ آمروں کی ایسی یادگاریں ایک خاص مدت کے بعد اپنے انجام کوجا پہنچیں۔
1985 میں جنرل ضیا الحق نے سیاستدانوں کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لئے آٹھویں آئینی ترمیم کی تھی۔ تقریبا 12 سال بعد، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے(تمام تر سیاسی رنجشوں کے باوجود ) متفقہ طور پر تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے دور آمریت کی اس یادگار کو مسمار کر ڈالا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی (2003 میں) ذیادہ سے ذیادہ اختیارات کے حصول کی خاطر، سترہویں آئینی ترمیم کی تھی۔
سات سال بعد(2010 میں) پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے دیگر جماعتوں کیساتھ مل کر اٹھارہویں آئینی ترمیم کی اور مشرف کے حاصل کردہ اختیارات کو پارلیمنٹ میں منتقل کیا۔ غلطی مگر یہ ہوئی کہ آئین کو اس کے اصل حلیے میں بحال کرتے وقت سیاستدان آمروں کی دو نشانیوں یعنی آرٹیکل 62/63(جوصداقت اور امانت سے متعلق ہے)اور نیب کا خاتمہ کرنا بھول گئے۔
دور آمریت کی یہ دو یادگاریں سیاستدانوں کے گلے کا پھندا بنی ہوئی ہیں۔ نیب کو قائم ہوئے 20 برس بیت چکے ہیں۔۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ اب اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکا ہے۔ جس طرح کے شدید تناعات میں یہ ادارہ اور اس کے چےئرمین گھر چکے ہیں، لگتا یہی ہے کہ اب اس ادارے کا منطقی انجام قریب تر ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔