جنسی صلاحیت! ختم شد

منگل 21 جولائی 2020

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

آج کا اخبار پڑ ھا تو چونڈہ کی کسی گاڑی میں رکشے ڈرائیور کی 10سالہ معصوم بچی سے کسی اوباش کی خبر پڑھی اور صد افسوس یہ کہ بچی ڈر اور خوف سے جان دے بیٹھی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ"زانیہ اور زانی کو کوڑے مارو ہر ایک کوسو سو کوڑے"(القرآن)اس آیت مبارکہ میں اس جرم کی سزا صاف اور واضح الفاظ میں بیان کی گئی ہے  اس وقت پاکستان میں جو معاملہ زیر بحث ہے وہ زبردستی جرم کرنے یا مرضی سے جرم کرنے سے بہت آگے کا ہے۔

پچھلے دو سالوں سے جوپے در پے واقعات سامنے آرہے ہیں وہ سزااور جزا سے بہت آگے کے ہیں۔پہلا جرم معصوم بچوں کو اغوا یا ورغلانا،دوسرا جنسی زیادتی اور تیسرا قتل۔کچھ دن پہلے وزیرمملکت علی محمد صاحب نے اس جرم کے مرتکب افراد کو سرعام سزا دینے کیلئے ایک قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی۔

(جاری ہے)

جس پر محترمہ شیریں مزاری سمیت بہت سے ارکان اسمبلی اور پی پی پی نے انسانی حقوق کا پرچار کیا۔

تب علی محمد کا بیان مجھے بہت پسند آیا" ان کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق ان کیلئے ہیں جو انسانیت میں رہتے ہیں۔ جو حیوانیت میں چلے جائیں ان پر انسانی حقوق لاگو نہیں ہوتے "ایک ایسا بچہ جو ناسمجھ ہے آپ اس پر اتنا ظلم کریں کہ وہ جان سے ہی چلا جائے یہ کہاں کی انسانیت ہے" بچے کی آنکھوں سے آنسو کی بجائے خون آنا شروع ہو گیا کیا یہ انسانیت ہے؟۔معصوم بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دینا اور لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنا انسانیت ہے؟۔

لاش کو کتے اور دوسرے جانور جھنجوڑتے ہیں کیا یہ انسانیت ہے؟۔ کسی ماں باپ کے گھر کا چراغ، ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک،دل کا قرار اک لمحے میں چھین لیا۔صرف اپنی لطافت کیلئے کیا یہ انسانیت ہے؟۔خیر قرارداد قومی اسمبلی میں اکثریت رائے سے منظور کر لی گئی۔یہ ایک خوش آئند بات ہے مگر اس قرارداد میں بھی بہت سی چیزوں کی کمی ہے۔ مثال کے طور پر ہم اکثر سزائے موت کے مجرمان کے خلاف فیصلہ سنتے ہیں کہ مجرم کو 10سال کی قید بامشقت 5لاکھ روپے جرمانہ اور پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے۔

اب اس مجرم کو کل ملا کر 3سزائیں سنائی گئیں ہیں اسی طرح زادتی اور قتل کیس میں جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں تین جرم سامنے آتے ہیں 1:ورغلانا یا اغوا کرنا 2:جنسی زیادتی 3:قتل۔اب ان تینوں جرائم پر بالترتیب سزا سنائی جانی چاہیے 1: اغوا کرنے کی سزا قید یا جرمانہ 2: جنسی زیادتی،قرآن پاک کے واضح احکامات 100کوڑے، قتل کے بدلے قتل،آنکھ کے بدلے آنکھ،کان کے بدلے کان،جان کے بدلے جان ایک اور واضح حکم ہے۔

ہم سب ریاست مدینہ کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں ایسا نہیں تھا کہ وہاں یہ جرائم نہیں ہوتے تھے وہاں یہ سب موجود تھا اور اس کی سزائیں سنائی تھیں۔پھانسی دینا مسئلہ نہیں ہے مسئلہ پوراانصاف مہیا کرنا ہے۔ پھانسی کی سزا سنا کر ہم معصوم بچے کو ورغلا نا یا اغوا اورپھر جنسی تشددکی سزائیں پھانسی کی سزا میں گول مول ہی کر جاتے ہیں۔ہمیں بچوں کو مکمل انصاف فراہم کرنے کی طرف قدم اٹھانا ہو گا۔

اس وقت دو بچیوں کے قاتل زیرحراست ہیں۔جرم تقریباثابت بھی ہو چکا ہے اب وکلا ء برادری سے گذارش ہے کہ وہ معصوم بچیوں کا کیس لڑتے ہوئے صرف انصاف یا سر عام پھانسی کا مطالبہ ہر گز نہ کریں بلکہ بچیوں کومکمل انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا جائے۔آزا د جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے جون کے مہینے میں اک قانون پاس کیا ہے کہ جو شخص کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہو گا اس کی جنسی صلاحیت ختم کر دی جائے گی مغرب یاہمارے ملک میں دیسی لبرل چاہیے جو مرضی کہیں۔

میرے نزدیک یہ احسن قدم ہے۔ جب تک مجرم کو کڑی سے کڑی سزائیں نہیں ہونگی۔میرے وطن کی بیٹیاں اورننھے بچے محفوظ نہیں۔قانون بن جائے گا فیصلہ بھی ہو جائے گا سزا بھی مل ہی  جائے گی چاہے جو بھی ملی لیکن ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے ایسے جرائم کی روک تھام میں مدد مل سکے۔مثال کے طور پرپچھلے دو سال میں جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں اکثرو بیشتر نہ صرف پکڑے گئے بلکہ سب کو سزائیں بھی ملیں لیکن کیا وجوہات ہیں کہ جرائم کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔

ہمیں ایسی معاشرتی اور نفسیاتی تبدیلیوں کا جائزہ بھی لینا ہو گا۔ میرے خیال میں ان واقعات کے بڑھنے کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ سوشل میڈیا کا نازیبا مواد ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے دنیا میں سب سے زیادہ مواد دیکھنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلم معاشر ے میں ایسے کام عملی طور پر نہیں کیے جاتے۔لہذا نوجوان میڈیا پر دیکھتے ہیں اورپھر عملی تسکین کیلئے ان حرکات  کے مرتکب ہوتے ہیں۔

لہذا والدین سے گذارش ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں اورچھوٹے بچوں کے والدین بھی اپنے بچوں کا خیال رکھیں۔ اسکے ساتھ ساتھ حکومت بھی ایسے اقدامات کرے کہ ایسا مواد سوشل میڈیا کی زینت نہ بن سکے۔ بچے خدا کا عشق ہوتے ہیں۔خدارا حکام بالا!آپکو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اختیار دیا ہے تو اس ننھے پھولوں کی حفاظت کریں۔ بقول شاعر
میری نگاہ شوق سے ہر گل ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجئے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :