بلوچستان کی بیٹی برمش، انصاف کی طلب گار

پیر 8 جون 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

ضلع کیچ کے علاقے ڈنک میں پچھلے دنوں کچھ مسلح ڈاکو بی بی ملک ناز نامی خاتون کے گھر ڈاکے کی نیت سے داخل ہوئے, اس دوران اس بہادر خاتوں نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی اور ایک ڈاکو کے چہرے سے نقاب ہٹایا مگر ظالم ڈاکوؤں نے بی بی ملک ناز کو   کو اس کی چار سالہ بچی برمش کی نظروں کے سامنے بے دردی سے فائرنگ کرکے قتل کیا. فائرنگ کے نتیجے میں برمش بھی زخمی ہوئی.

اسی دوران نزدیکی ہمسایوں نے ایک ڈاکو کو پکڑ کر اس کی  پٹائی کی اور پولیس کے حوالے کیا. مگر باقی افراد سرغنہ سمیت بھاگنے میں کامیاب ہوگئے.
ایک اہم بات  کہ یہ وہ علاقہ  ہے  جہاں سیکیورٹی کی وجہ سے پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا.

(جاری ہے)

ہر قدم پر لیویز, پولیس, ایف سی یا آرمی کی چوکیاں ہیں مگر یہیں پر علی بابا اپنے چالیس چوروں سمیت روز کہیں نہ کہیں ڈاکہ ڈالتا ہے اور انہیں پکڑنے والا کوئی نہیں اور یہ بات اس امر کی جانب نشاندہی کرتی ہے کہ ایسے جرائم پیشہ افراد کو طاقت ور ہاتھوں کی  پشت پناہی حاصل ہے .
بلوچ معاشرہ وہ معاشرہ تھا جہاں اسلحہ بلوچ مرد کی شان , بہادری اور عزت کا نشان سمجھا جاتا تھا مگر اب تو یہ عالم ہے کہ یہ چور اچکوں کی میراث بن چکا ہے.

اسلحے کے زور پر بلوچی روایات کی مکمل پامالی کی جارہی ہے. یہاں عورت کی عزت اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ جب کوئی عورت قتل کے سنگین مقدموں میں اپنا دوپٹہ سر سے اتار دیتی  تو خون بھی معاف ہو جاتے. مگر اب روایات کی پامالی کی وجہ سے  کسی کی بھی جان و مال اور عزت محفوظ نہیں اور اس پر عالم یہ کہ ان چور اچکوں کو اعلی انتظامیہ کی مکمل سرپرستی اور تحفظ بھی حاصل ہے اس لیے وہ اس دلخراش واقعہ پر کاروائی کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں.
      یہاں یہ بات بھی دیکھنے میں آرہی ہے کہ ہمارے مین سٹریم  میڈیا میں اس دلسوز واقعے کی کوریج بالکل بھی نہیں ہورہی ہے بلکہ الٹا کچھ دن پہلے پاکستان کے ایک انتہائی بڑے اور  اہم چینل نے اسے کسی گھریلو تشدد کے واقعے سے جوڑ دیا.

مین سٹریم میڈیا کی طرح سوشل میڈیا پر بھی اس ملک میں بسنے والے مسلمان بچی کی فریاد اور آہیں کسی کو سنائی نہیں دے رہی ہیں. سوشل میڈیا میں اس بچی کی کچھ وڈیوز اور تصاویر کے علاوہ اس تمام حلقے کو سانپ سونگھ گیا جو سانحہ ساہیوال اور قصور کی زینب سے  لے کر نور کی درد ناک موت کے نتیجے میں انصاف  کے لیے سوشل میڈیا پر پوری طرح سرگرم عمل تھے.

مگر اس معاملے میں ایک مجرمانہ سی خاموشی دیکھنے میں آرہی ہے .یہ کیسا  اسلامی ملک ہے جہاں ایک جیسے دلخراش واقعات میں کسی کا دکھ  کم اور کسی کا زیادہ محسوس ہوتا ہے.  لگتا ہے کہ اب تو ایسے واقعات اور ہمدردیاں بھی صوبائی تعصب کا شکار ہوچکے ہیں .کسی کے لیے اتنا بولا جاتا ہے کہ اس کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی سکون کا سانس لیا جاتا ہے وہیں کسی کی آہیں اور فریاد اتنی جلدی دم توڑدیتی ہیں.
   اس حوالے سے کچھ علاقوں میں تھوڑا بہت احتجاج بھی دیکھنے میں آیا ہے جن میں کیچ , گوادر پنجگور , کوئٹہ اور کراچی شامل ہیں جو کہ ایک مثبت پہلو ہے مگر پورے پاکستان میں باقی معاملوں کی طرح یہاں بھی اس صوبے کے حصے میں نا انصافی ہی آئی اور ملک گیر احتجاج کا فقدان نظر آیا البتہ لاہور میں ایک خاندان نے اپنے انسانیت دوستی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے احتجاج ضرور کیا, جسے دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور دکھ بھی .خوشی اس لیے کہ برمش کو انصاف ملے نہ ملے انسانیت کچھ لوگوں میں اب بھی زندہ ہے.

دکھ اس لیے کہ وہ بچی اور اس کی ماں عصبیت کی نذر ہوگئے. ہم بہت حساس قوم ہیں ہمیں دوسالہ کشمیری بچے کے آنسو توڑ دیتے ہیں , ساحل سمندر پر تین سالہ شامی بچے کی لاش ہمارے وچود کی کرچیاں بکھیر دیتی ہے . چار سالہ شامی بچے کی اپنے رب سے شکایت دلوں کو کرچی کرچی کردیتی ہے . زینب, خدیجہ, نور سب ہمیں احتجاج پر مجبور کردیتی ہیں مگر نہ جانے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی برمش  اور اس جیسے کئی دوسرے واقعات جھوٹے اور پروپیگنڈا لگتے ہیں .
   جارج فلوویڈ امریکہ میں وہ حبشی اور سیاہ فام قوم سے تعلق رکھنے والا شخص ہے جسے امریکی سیکیورٹی پرسن کی طرف سے قتل کیا تو پورے امریکہ میں بھونچال آگیا بلکہ پاکستان سمیت ہر جگہ سوشل میڈیا پر  اس ظلم کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں.اس سیاہ فام کو ہلاک کرنے پر وہاں کے سفید فام بھی, جن پر نسل پرستی کا لیبل لگا ہوا ہے احتجاج کر رہے ہیں .

مگر ہمارے ملک میں  ایک ماں کو اس کی بچی کے سامنے ڈاکو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کرتے ہیں اور اس بچی برمش کو بھی زخمی کرتے ہیں مگر کچھ مخصوص لوگوں کے علاوہ ہر جگہ خاموشی نظر آرہی ہے. اس معصوم بچی کا رونا کسی کا بھی دل نہیں پگھلا رہا ہے.
  ہمارا عدالتی نظام تو ویسے بھی سست روی کا شکار ہے . وہاں انصاف ملتے ملتے دہائیاں گزرجاتی ہیں.

رمضان کی تعظیم نہ کرنے کے جرم میں کھانا کھانے پر پانچ دن کی قید انصاف نہ ہونے کی وجہ سے پانچ سال تک محیط ہو جاتی ہے . والدین کے قتل کے جرم میں ملوث لڑکی بیس سال سزا کاٹنے کے بعد بے گناہ ثابت ہوتی ہے . اس لیے  وہاں سے انصاف کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی لیکن ایسا نہ ہو کہ عام آدمی کی اپنے ملک کی بچی کے لیے یہ مجرمانہ خاموشی کہیں اس کی آہیں بھی خدا تک پہنچنے کا وسیلہ نہ بنیں . 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :